Column

روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے

تحریر : ایم فاروق قمر
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ ( سورۃ بقرہ آیت: 183)
روزہ خالصتا اللہ پاک کی رضا کے لیے رکھا جاتا ہے اور اس کا اجر بھی اللہ پاک ہی عطا کرتا ہے۔ روزہ صرف پیٹ کو بھوکے رکھنے کا نام نہیں ہے، انسان کے تمام اعضاء کا روزہ ہوتا ہے۔ آنکھ ہے تو اس کا بھی روزہ ہے تاکہ وہ کسی برائی کو نہ دیکھے ، کان ہے تو اس کا بھی روزہ ہی وہ کسی برائی کو نہ سنے ، ناک کا بھی روزہ ہے ، زبان کا روزہ ہے کہ وہ زبان سے کوئی برے الفاظ نہ نکالے ، ہاتھ کا روزہ ہے پائوں کا روزہ ہے۔اسی طرح اگر ایک تاجر ہے، دکاندار ہے تو اس کا ان تمام امور کے علاوہ وہ جو مال بیچتا ہے اس کا بھی روزہ ہے۔ یہ نہیں کہ وہ مال کو جھوٹ بول کر بیچے ملاوٹ سے بچے اور مال کو چھپا لے تاکہ اس کی قیمت بڑھ جائے اور میں زیادہ منافع حاصل کروں۔ اسلام میں ذخیرہ اندوزی کی ممانت کی گئی ہے۔
نبی کریمؐ کی حدیث ہے، ترجمہ: ’’ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔
اس کا واضح مطلب ہے میرے کریم آقاؐ فرما رہے ہیں کہ ملاوٹ کرنے والا دھوکہ دینے والا میرا امتی نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں جو ہی رمضان المبارک آتا ہے ،تاجر حضرات اشیاء خورونوش کو ذخیرہ کر لیتے ہیں اور من مانے ریٹ پر بیچتے ہیں۔
روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزہ، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتا ہے۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور خدا کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان خدا کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائز اور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا۔ اسی اخلاقی برتری کو ہم تقویٰ کہتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو جیسا اس سے ڈرنا چاہیے اور نہ مرو مگر ایسے حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ ( سورۃ آل عمران: آیت 102)
تقویٰ لفظ قرآن کریم میں بہت استعمال ہوا ہے بلکہ ایمان کے ساتھ تقویٰ کا اکثر حکم آتا ہے۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا بھی ہیں اور بچنا بھی اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ یا قیامت کے دن سے ہو تو اس سے ڈرنا مراد ہوتا ہے کیونکہ رب سے اور قیامت سے کوئی نہیں بچ سکتا ، جیسے قرآن پاک میں ارشاد ہے، ترجمہ: ’’ اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو‘‘۔ ( البقرۃ:278)
میرے کریم آقاؐ نے فرمایا: ’’ اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ ( صحیح بخاری ۔1903)
روزہ جہاں انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے اور تقویٰ کی وجہ سے وہ ہر گناہ سے بچتا ہے اور ناپاک سے ڈرتا ہے تو پرہیزگاروں میں ہو جاتا ہے متقی بن جاتا ہے تو جہاں اس کے لیے بہت سارے انعامات ہیں وہاں اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ بھی انعام ہے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا:’’ بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ’ رَیَّان‘ کہا جاتا ہے، قیامت کے دن اس میں سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا: روزہ دار کہاں ہیں؟ تو وہ اس میں داخل ہو جائیں گے، اور جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر اس میں سے کوئی داخل نہیں ہوگا۔ ( صحیح البخاری: 1896 )
تقویٰ کیا ہے؟ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ کبھی کانٹے دار جھاڑیوں والے راستے سے گزرے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ عمر فاروقؓ نے کہا کہ میں نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور کانٹوں سے بچتا ہوا گزر گیا۔ ابی بن کعب نے کہا کہ یہی تقویٰ ہے۔ اس روایت سے تقویٰ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ تقویٰ دراصل یہ ہے کہ آدمی اس دنیا میں ہر قسم کے فتنوں سے بچتا ہوا گزر جائے۔ دنیا میں ہر وقت مختلف قسم کی ترغیبات ھوتی ہیں، مختلف قسم کے چھوٹے یا بڑے فتنے پائے جاتے ہیں- ایسی حالت میں، تقویٰ کی روش یہ ہے کہ آدمی ان سے بچتا ہوا گزرے، وہ ہر موقع پر پرہیز گارانہ طریقہ، یا محتاط طریقہ اختیار کرے۔ تقویٰ کے اس روش پر قائم رہنے کے لیے دو چیزیں بہت زیادہ ضروری ہیں۔۔۔ سنجیدگی اور محاسبہ، یعنی چیزوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا اور ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا ۔ یہی دونوں صفتیں اس بات کی ضامن ہیں کہ آدمی تقویٰ کے راستے پر قائم رہے گا ، وہ غیر متقیانہ روش اختیار کرنے سے بچا رہے گا۔ تقویٰ کسی ظاہری وضع قطع کا نام نہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ ، ترجمہ: ’’ تقویٰ کا تعلق دل سے ہے‘‘۔ ( مسلم الحدیث:6706)
جو آدمی گہرائی کے ساتھ معاملات پر غور کرے گا، وہی تقویٰ کی روش پر قائم رہے گا، کیونکہ سب سے زیادہ دانا وہ ہے جو متقی ہے۔ تقویٰ حقیقت میں ایک داخلی کیفیت کا نام ہے۔ داخلی طور پر اگر آدمی متقی نہ ہو تو کوئی بھی خارجی فارم خدا کے نزدیک اس کو متقی کا درجہ نہیں دے سکتا اور اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو وہ صرف تقویٰ کی بنا پر ہے۔
میرے نبیؐ نے فرمایا کسی کالی کو کسی گورے پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو وہ صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ تقویٰ سے بندے کو اللہ پاک کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ گناہوں سے بچ جاتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں ایسا متقی بنا دے کہ قرآن پاک سے اور حضورؐ کی سنت مطہرہ سے ہدایت نصیب ہو ۔ اور ایسی ہدایت جس کے بعد کبھی ہم گمراہ نہ ہوں ۔ اللہ پاک نا صرف رمضان المبارک پوری زندگی میں ہمیں تقویٰ اختیار کرنے ، اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!

جواب دیں

Back to top button