Column

چین، امریکہ اقتصادی جنگ! نیا رخ کیا ہو سکتا ہے؟

 

تحریر : ملک شفقت اللہ

چین نے سال 2025ء کے لیے اپنی اقتصادی ترقی کا ہدف تقریباً 5فیصد مقرر کیا ہے۔ یہ اعلان چینی وزیرِاعظم لی کیانگ نے سالانہ کمیونسٹ پارٹی اجلاس کے دوران کیا۔ اس ہدف کے ساتھ ہی چین نے اپنی مالی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کرتے ہوئے بجٹ خسارے کو 4فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، جو کہ گزشتہ تین دہائیوں میں بلند ترین سطح ہے۔ اس اقدام کا مقصد نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری، کمزور صارفین کی طلب اور جائیداد کے شعبے میں جاری بحران سے نمٹنا ہے۔ چین کی حکومت نے واضح کیا ہے کہ اب ملکی طلب کو معیشت کی ’’ مرکزی بنیاد‘‘ بنایا جائے گا۔ اس فیصلے کے پیچھے امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کا اثر بھی کارفرما ہے، جس کی وجہ سے چینی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔ چین نے اس سال 12ملین نئے شہری ملازمتوں کی فراہمی کا ہدف بھی مقرر کیا ہے جبکہ افراط زر کو 2فیصد تک محدود رکھنے کی کوشش کا اعادہ کیا ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ خسارے میں ایک فیصد اضافے سے حکومت کو سست روی کی شکار معیشت کو سہارا دینے کے لیے مالی گنجائش حاصل ہوگی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دور میں چین، میکسیکو اور کینیڈا پر بھاری تجارتی محصولات (tariffs)عائد کیے گئے تھے۔ چین نے ان اقدامات کے جواب میں تدابیر اپنائی تھیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی دوبارہ آمد سے تجارتی کشیدگی میں مزید اضافہ دکھائی پڑتا ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق چین کی موجودہ پالیسی ملکی معیشت کو داخلی بنیادوں پر مستحکم کرنے کی کوشش ہے تاکہ وہ بیرونی دبا سے محفوظ رہے۔ بعض ماہرین کے مطابق امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کے نتیجے میں عالمی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال بڑھ رہی ہے، جس کا اثر تیسری دنیا کے ممالک پر بھی پڑ رہا ہے۔ یہ تجارتی کشمکش ترقی پذیر ممالک کے لیے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں عدم استحکام، درآمدات کی قیمتوں میں اضافے اور معاشی غیر یقینی صورتحال کا باعث بنی ہے۔ بالخصوص ان ممالک کے لیے جو چین یا امریکہ پر تجارتی انحصار رکھتے ہیں، وہ اقتصادی طور پر غیر یقینی کا شکار رہیں گی۔ یہ واضح ہے کہ دنیا ایک نئے اقتصادی و سیاسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ چین کی اندرونی پالیسیوں میں تبدیلی اور امریکہ کے ساتھ تجارتی محاذ آرائی عالمی نظام میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی ماہرین کے مطابق چین کی ’’ اندرونی طلب کو مرکزی بنیاد‘‘ بنانے کی پالیسی نہ صرف داخلی معیشت کو مستحکم کرے گی بلکہ عالمی تجارتی نظام میں اس کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنائے گی۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو سے جڑے ممالک میں اقتصادی ترقی کی شرح 1.3سے 1.5فیصد زیادہ رہی ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف ایشیا بلکہ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا محرک بن رہا ہے۔ ٹرمپ نے سابقہ دور حکومت میں بھی امریکہ فرسٹ کا نعرہ لگانے کے بعد اسی طرح کے اقتصادی ٹیرف نافذ کیے تھے، جس کے بعد امریکہ اور چین کے درمیانی تجارتی جنگ نے زور پکڑا تھا۔ ٹرمپ کی واپسی کے بعد امریکہ فرسٹ پالیسی اور اقتصادی ٹیرف کے تناظر میں عالمی مالیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، او ای سی ڈی اور دیگر اقتصادی و معاشی ماہرین اس نئی تجارتی پالیسی کے ممکنہ اثرات سے بڑھتے ہوئے چیلنجز کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ چند عالمی ماہرین معاشیات جیسا کہ، جوزف اسٹگلٹز جو کہ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ہیں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے محصولات، معاشی منطق سے زیادہ سیاسی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی معاشی و تجارتی نظام کو طویل مدتی نقصان ہوگا۔ ایک اور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پال کرگمین نے رائے پیش کی کہ ٹیرف پر مبنی پالیسیاں تجارتی تخلیق کے بجائے تجارتی پیچ و خم پیدا کریں گی، جو عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کریں گی۔ اکانومک آٹ لک سے گولڈ مین نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیرف میں اضافہ چین اور یورپی یونین کے طرف سے جوابی اقدام کو متحرک کر سکتا ہے جس سے امریکی معیشت پر غیر معمولی دبائو بڑھے گا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ اقتصادیات لارنس سمرز کے مطابق، چین کی بلند سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی میں خود کفالت کی کوششیں ایک نئے اقتصادی بلاک کی تشکیل کا موجب بنے گی، جو مغربی معیشتوں کے متبادل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے اقتصادی ٹیرف پر تنقید کرتے ہوئے حالیہ رپورٹس میں خبر دار کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو ماضی کی طرح دوبارہ بڑے پیمانے پر ٹیرف کی مد میں تجارتی دیواریں کھڑی کر رہا ہے، کی وجہ سے عالمی معیشت کی ترقی کی رفتار میں اعشاریہ پانچ فیصد سے ایک فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے کہا کہ اقتصادی و تجارتی ٹیرف مختصر مدت کیلئے سیاسی فوائد تو دے سکتے ہیں، لیکن وہ عالمی تجارتی نیٹ ورک کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور عالمی سطح پر پیداواری ترقی کو سست کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ ٹیرف، سپلائی چین متاثر ہونے کی بڑی وجہ بنتے ہیں، جس سے عالمی سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے اور درآمدی زرمبادلہ کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، جو افراط زر کا باعث بنتی ہیں۔ ورلڈ بینک کی آراء امریکہ فرسٹ پالیسی کے بارے میں آئی ایم سے مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ ایک قدم بڑھ کر وہ عالمی تجارتی نظام کے بکھرنے کے خدشات ظاہر کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکہ اور چین کے درمیان پالیسی تعاون بحال نہیں ہوتا تو دنیا کے Decouplingیعنی دو بڑے معاشی بلاکس میں تقسیم ہونے کا خطرہ ہے، جہاں صرف واشنگٹن نہیں بلکہ بیجنگ اور دیگر طاقتیں بھی عالمی فیصلوں میں مرکزی کردار ادا کریں گی۔ یہ تبدیلی ترقی پذیر ممالک کیلئے نئے مواقع کیساتھ ساتھ نئے چیلنج بھی لائے گی۔۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ ان پالیسیوں سے متاثر ہوں گے کیونکہ وہ یا کسی ایک معاشی بلاک میں محدود ہو جائیں گے یا دونوں میں سے کسی کی ترجیح نہیں بنیں گے۔ اور اگر ایسی صورتحال سے تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے کہ گلوبل جی ڈی پی میں دو فیصد تک نقصان ہو سکتا ہے۔ یوں چند خدشات مزید پیدا ہوتے ہیں۔ گلوبل تجارتی حجم کم ہو جائے گا، چین یا امریکی بلاک میں موجود ترقی پذیر ممالک کی برآمدات مزید متاثر ہوں گی۔ افراط زر کی وجہ سے درآمدی اشیاء مہنگی ہو جائیں گی، اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ رک جائے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی مالیاتی ادارے ڈونلڈ ٹرمپ کی تکبرانہ طبیعت پر اثر انداز ہو کر اقتصادی ٹیرف کی پالیسی کو ختم کروانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا پھر دنیا عالمی تجارتی جنگ میں جھونک دی جائے گی؟۔ ترقی پذیر ممالک کو اس بدلتے منظر نامے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے محتاط حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button