Column

خیر الدین پاشا

تحریر : علیشبا بگٹی

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایک سمندری لٹیرا ایک دن عثمانی بحریہ کا عظیم ایڈمرل بن جائے گا ؟ جی ہاں۔ آج ہم بات کریں گے اُس تاریخی شخصیت کی جسے دنیا خیر الدین بارباروسا کے نام سے جانتی ہے۔ وہ ایک نجی جہاز ران تھے۔
خیر الدین پاشا بارباروسا 1475ء کو یونان کے جزیرہ میدیلی جس کا موجودہ نام لیز بوئیس ہے میں پیدا ہوئے اور وفات 1546ء میں استنبول میں آبنائے فاسفورس کے کنارے واقع اپنے محل میں ہوئی۔ ان کا مزار استنبول میں ترک بحری عجائب خانے کے قریب موجود ہے۔ ترک بحریہ کے متعدد جہازوں کے نام انھیں پر رکھے گئے ہیں۔ آج بھی ترک دید بحریہ کا کوئی جہاز آبنائے باسفورس سے گزرتا ہے تو ان کے مقبرے کی طرف سلامی دیتا ہے۔
اُنہیں اپنی سرخ داڑھی کی وجہ سے بارباروسا یعنی ’’ سرخ داڑھی والا‘‘ کا لقب ملا۔
خیر الدین بارباروسا کی کہانی ایک عام سمندری لٹیرے سے شروع ہوتی ہے، جب وہ اپنے بڑے بھائی عروج رئیس کے ساتھ بحیرہ روم میں عیسائی بیڑوں کو نشانہ بناتے تھے۔ عروج رئیس کی شہادت کے بعد خیر الدین نے قیادت سنبھالی اور الجزائر سمیت شمالی افریقہ کے کئی علاقوں کو عثمانی سلطنت کا حصہ بنایا۔
جب سلطان سلیمان اعظم نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا تو اُنہیں عثمانی بحریہ کا ایڈمرل مقرر کیا۔ کئی دہائیوں تک بحیرہ روم میں اپنی طاقت کی دھاک بٹھائے رکھا۔ بارباروسا نے نہ صرف عثمانی بحریہ کو منظم کیا، بلکہ 1538ء کی مشہور ’’ جنگِ پریویزا‘‘ میں یورپی طاقتوں کے مشترکہ بحری بیڑے کو زبردست شکست دی۔ اس فتح نے عثمانیوں کو بحیرہ روم کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔
اُن کی میراث نہ صرف ایک عظیم جنگجو کی ہے بلکہ وہ ایک بہترین منتظم اور حکمت عملی کے ماہر بھی تھے۔ اُنہوں نے عثمانی بحریہ میں اصلاحات کیں، جن کی بدولت صدیوں تک عثمانی جہاز سمندروں پر چھائے رہے۔
خیر الدین بارباروسا کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک عام لٹیرا بھی اپنے جذبے، حوصلے اور حکمتِ عملی سے تاریخ کا عظیم ہیرو بن سکتا ہے!۔۔۔
بارباروس 1544ء میں استنبول میں سبکدوش ہو گیا اور الجزیرہ میں اس کے صاحبزادے حسن پاشا کو جانشیں مقرر کیا گیا۔ اس نے اپنی سوانح حیات ’’ غزوات خیر الدین پاشا‘‘ بھی تحریر کی جو ہاتھ سے لکھی گئی 5جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس سوانح حیات کی جلدیں جامعہ استنبول کے کتب خانے میں موجود ہیں ۔
کسی نے کہا ہے کہ قسمت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے اور ویسے بھی تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد کرتی ہے۔ بزدلوں کو یاد نہیں کرتی۔
ساحر لدھیانوی کا شعر ہے کہ
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں۔
بسمل عظیم آبادی کا شعر ہے کہ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کہتے ہیں کہ منزلیں ہمیشہ بہادروں کا استقبال کرتی ہیں بزدلوں کو تو راستے کا خوف مار دیتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button