CM RizwanColumn

فرمائشی انقلاب آخری ہچکیوں پر

تحریر : سی ایم رضوان
آج انقلابی شاعر حبیب جالب کا یوم وفات ہے۔
ان کا کلام ہے کہ
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
بہاروں نے دیئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو
یہ بھی اتفاق ہی سمجھیں کہ ان دنوں ہمارے خطہ میں بہار کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ مگر یہ بہار صرف موسم کی حد تک ہے۔ عوام کے چہروں پر بہار نہیں ہے۔ یہ سوال بھی درست ہے کہ عوام الناس میں سے کون ہے جو خوار نہیں ہی اور اشرافیہ میں کون سا خاندان ہے جو اب بااختیار نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کے عوام پر مظالم ڈھانے کے معاملے میں کوئی ادھار نہیں ہے۔ آج یہ بھی دیکھنا ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ بیس ارب روپے کے رمضان المبارک کے پیکیج میں سے عوام کو کیا ملتا ہے۔ یقیناً عوام کی ساتھ وہی ہو گا جو قیام پاکستان سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یقین جانیں دل جب بھی ملک کی حالت زار دیکھ کر دکھی ہوتا ہے تو حبیب جالب صاحب یاد آتے ہیں۔ ہم میں سے شاعری کی شد بدھ رکھنے والے تمام دوست اس امر سے اتفاق کریں گے کہ حبیب جالب کی طرز میں شاعری کرنا مشکل نہیں ہے بلکہ اصل مشکل ایسے اشعار کو پبلک کرنا اور ان کی تخلیقی ذمہ داری اٹھانا ہے۔ اس فن بلکہ کار بہادری میں حبیب جالب سابقہ اور موجودہ ملکی تاریخ میں تنہا نظر آتے ہیں۔ ان کی کتاب جالب بیتی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ان کو مشاعرے میں جس نظم کے پڑھنے سے روکا جاتا یہ وہی پڑھتے اور وہیں پڑھتے۔ دھڑلے سے پڑھتے اور پھر اس پڑھنے کا خمیازہ بھی انہیں سرعام اور خوب بھگتنا پڑتا۔ اس بھگتنے سے مراد وہ بھگتنا نہیں جو ان دنوں قبلہ اڈیالوی بھگت رہے ہیں بلکہ ان کو تو ان کی میگا کرپشن کی جائز سزا اور عوام دشمن پالیسیوں اور عوام دشمن سیاست کی جائز جزا مل رہی ہے اور ان دنوں تو پاک فوج پچھلے پچھتر سالوں کے دھونے دھو رہی ہے اور خوب دھو رہی ہے۔ قبلہ اڈیالوی کے پیروکار یہ جو کل کے آمریت پرور ہیں اور آج کل انقلابی بنے ہوئے ہیں ان کا اپنی سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں حال یہ تھا کہ اگر اس وقت کی اپوزیشن کا کوئی لیڈر اصولی طور پر باجوائی آمریت کے خلاف بات کرتا تھا تو یہ اس کو کھلم کھلا غداری قرار دے دیتے تھے۔ ایسے ہی کرداروں کے حامل سیاستدانوں کی نظر میں حبیب جالب جیسے کردار ہر دور میں ناپسندیدہ رہے ہیں۔ حبیب جالب تو سابقہ فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے اور پی ٹی آئی طرز کی آمرانہ صفات کی حامل سیاسی حکومتوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے۔ وہ ایسے کرداروں میں سے کسی سے بھی خوش نہیں تھے کیونکہ حکومت میں آنے سے پہلے یا حکومت میں آنے کے فوری بعد ان آمر سیاستدانوں کے بیانات کچھ اور ہوتے ہیں اور حکومت میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ایسے حکمرانوں کے حالات تو بدل جاتے لیکن عوام کے حالات پہلے سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ ماضی کا ایک پرو اسٹیبلشمنٹ لیڈر اب جھوٹ موٹ کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر بن کر اڈیالہ جیل میں مقیم ہے اور اس کی فرمائش پر ایک جھوٹا انقلاب سوشل میڈیا پر اودھم مچا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بالکل درست کہا ہے کہ یہ ٹولہ اب اپنے لائف سرکل کی تکمیل کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یعنی قبلہ اڈیالوی کا فرمائشی انقلاب اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے کیونکہ ہر قسم کے اور ہر وقت کے فتنہ و فساد پر آمادہ اڈیالوی لیڈر کو اب ملک کے باشعور لوگ جیل میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں، جیل سے باہر نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ محب وطن لوگ ملک میں معیشت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، مہنگائی میں کمی اور روزگار میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ملکی جمہوری نظام میں جس جماعت یا اتحاد کی ایک ووٹ کی بھی اکثریت ہو اس کی حکومت ہوتی ہے۔ اس لئے جونہی کوئی سیاسی جماعت یا اتحاد اپنی اکثریت ثابت کرتا ہے لوگ اس کو آزمانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اب لوگ نون لیگ کی اتحادی اکثریت کو تسلیم کر کے اس کی کارکردگی کو آزما رہے ہیں کیونکہ اس اتحاد نے اپنی عددی اکثریت کے تحت حکومت لی ہے۔ اسے کام کرنا چاہئے لیکن جو لوگ بیرون ممالک یا اقتدار سے باہر بیٹھ کر اڈیالوی کے حق میں ٹویٹس کر رہے ہیں جن کو پاکستان کے معروضی حالات کا قطعاً ادراک نہیں وہ اب اپنی امیدوں کی موت کا منظر دیکھتے ہیں تو روز بروز ان کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے پردیسیوں کی مایوسی کی ایک اور بھی وجہ ہے کہ نون لیگ کی جانب سے معاشی محاذ پر کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں عام عوام کی توجہ اڈیالوی فتنوں سے ہٹتی جا رہی ہے۔ اب یہ بھی ہونے جا رہا ہے کہ اس پارٹی کو جھوٹی مقبولیت دلوانے والی قوتیں اس کا ساتھ چھوڑ رہی ہیں۔ وہ طاقتیں جنہوں نے عدلیہ اور میڈیا میں اس پارٹی کی مضبوطی کے لئے انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے ان کی انوسٹمنٹ بھی ضائع ہو رہی کیونکہ اب بڑے بڑے میڈیا جغادری اور جج ایک ایک کر کے ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گزشتہ انتخابات میں بھی ان قوتوں نے ہی پی ٹی آئی کے حق میں دھاندلی کا کھیل رچایا ہو اور پھر جب اس کھیل میں مرکز اور تین صوبوں میں ناکامی نظر آئی تو انتخابات کے بعد کمشنر راولپنڈی کی جانب سے دھاندلی کا الزام سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر عائد کر کے دھماکہ کرنے کی کوشش کی گئی ہو مگر پھر اس فتنے پر بھی قابو پا لیا گیا۔ گویا اس الزام کا مقصد بھی انتخابات کو متنازع بنا کر ملک میں ایک ایسی فضا قائم کرنا تھا جس کا مقصد افراتفری اور انارکی کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر کمشنر راولپنڈی اس منصوبے کا حصہ ہو سکتا تھا تو کمشنر فیصل آباد، لیہ، بھکر، ڈی جی خان، شیخوپورہ اور گجرانوالا کیوں نہیں ہو سکتے تھے، سابق وزیر جاوید لطیف بھی یہی رونا رو رہے ہیں۔ جہاں سے پی ٹی آئی کو جیت اور نون لیگ کو شکست ہوئی تھی۔ اگر پی ٹی آئی ان علاقوں میں اتنی ہی مقبول تھی تو یہ سوال بھی اہم ہے کہ بعد ازاں پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار پنجاب میں دھرنے اور لانگ مارچ کی کال کیوں ناکام ہوتی۔ مطلب یہ کہ ایسی نادیدہ ملکی اور غیر ملکی قوتیں پاکستان میں انارکی پھیلانے کے لئے متحرک تھیں اور متحرک ہیں جن کے نوازے ہوءے کئی الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے اس وقت بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال میں اگر پی ٹی آئی ابھی تک پارہ پارہ ہونے کے باوجود نظر آتی ہے اور اس کے لیڈر شور مچاتے پائے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کینسر کے جرثومے ابھی بھی پوری طرح سے مرے نہیں ہیں اور ان جرثوموں کو مزید زندگی دینے کے لئے قبلہ اڈیالوی اپنے ساتھ ملاقات کے لئے اڈیالہ جیل آنے والے اپنے ہر پارٹی لیڈر کو یہی کہتے ہیں کہ میری رہائی کے لئے زیادہ سے زیادہ شور ڈالو اور ملک میں آئے روز کوئی نہ کوئی نیا فتنہ برپا کرتے رہو کیونکہ میں جیل میں پھنسا ہوا ہوں اور تم لوگ حکومتی کمیٹیوں میں شامل ہو کر میرے نام پر آزاد پھر رہے ہو اور موجیں اڑا رہے ہو۔ اڈیالوی کے اس طرح کے رونے دھونے پر آئے روز اس بچی کھچی ہانڈی میں تھوڑا بہت ابال آتا ہے مگر پھر یہ ابال خود ہی نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ اب بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ان کے پاس حکومت کے خلاف کچھ کرنے کو تو رہا نہیں۔ بس اڈیالہ جیل سے پریشر آنے پر وقتاً فوقتاً تھوڑا بہت شور ڈالتے ہیں اور پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ دوسری جانب وفاقی اور پنجاب حکومت روز بروز کامیابی سمیٹ رہی ہے۔ اور تو اور محسن نقوی جیسے وزیر بھی اب محدود ہو کر کام کرنے پر آمادہ ہیں۔ بلاول بھٹو بھی حکومت کی تعریف کر رہے ہیں اور فتنہ و فساد برپا کرنے پر پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ گزشتہ روز صدر پاکستان آصف علی ذرداری کے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران جس طرح اپوزیشن نے شور ڈالا اور غیر جمہوری رویہ اختیار کیا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ صرف فتنہ فساد برپا کرنے اور شور ڈالنے کے سوا کچھ نہیں جانتے اور کسی بھی سنجیدہ کھیل اور کام کی بات کرنے کے قابل نہیں جبکہ ملک میں ایک سنجیدہ اور حب الوطنی کی فضا قائم ہے اور محب وطن فوجی کمانڈ اور کام کی جستجو اور مہارت رکھنے والی سیاسی قیادت ان لوگوں کو دوبارہ سے اہمیت دے کر ملکہ کا مزید نقصان کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ان حالات میں ایک بات طے ہے کہ اب ان لوگوں کو گو کہ تھوڑی بہت آکسیجن مل رہی ہے مگر جلد ہی یہ آکسیجن بھی بند ہو جائے گی اور آخری ہچکیاں لیتا فرمائشی انقلاب اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اس جھوٹے انقلاب کی موت ہی دراصل حبیب جالب جیسے حقیقی محب وطن اہل دانش کی جیت ہو گی جو صحیح اور جھوٹے انقلابیوں میں فرق کرنا جانتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button