Column

بھارت ۔امریکہ سٹریٹجک معاہدوں کے خطے پر اثرات

قادر خان یوسف زئی

بھارت-امریکہ کے سٹریٹجک معاہدوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات خاص طور پر دفاعی، تجارتی اور توانائی کے شعبوں میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں، جس کے تحت امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی، جیسے ایف35 اسٹیلتھ طیاروں کی فراہمی کی راہ ہموار کرنے کا عندیہ دیا ہے، جو پہلی بار کسی غیر نیٹو اتحادی کو فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کو تحفظات ہیں کہ بھارت کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اس کی جوہری اور روایتی طاقت کو متاثر کر سکتی ہے۔ پاکستان نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں جوہری اور غیر جوہری دونوں سطحوں پر توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن بھارت کی طرف سے ایسی جدید ٹیکنالوجیز کی خریداری سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں فرق پڑ سکتا ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 74.3ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جس سے پاکستان پر اسلحہ کی دوڑ میں مزید دبائو بڑھ جائے گا۔ امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق بھارت اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے آئندہ ایک دہائی کے دوران 200ارب ڈالر خرچ کرے گا۔
جغرافیائی سیاسی سطح پر، امریکہ اور بھارت کے تعلقات چین کیلئے ایک چیلنج بنے ہیں، کیونکہ ’’کواڈ‘‘ جیسی مشترکہ کوششوں کے ذریعے دونوں ممالک چین کے علاقے میں اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خصوصاً انڈو-پیسفک خطے میں۔ بھارت کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات امریکہ کیلئے اس لئے اہم ہیں کیونکہ بھارت کوچین کے مقابلے میں کھڑا کیا جارہا ہے، اور امریکہ بھارت کے ذریعے چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت کے روس کے ساتھ دفاعی تعلقات میں پیچیدگیاں آ رہی ہیں، خصوصاً ایف35اسٹیلتھ فائٹر طیارے بھارت کو دینے کی امریکی پیشکش پر بھارت اور روس کے درمیان S400سسٹمز کی فراہمی کے اثرات کو بھی دیکھنا ہوگا، خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے چین و پاکستان کے مقابل بھارت کو جدید اسلحے سے لیس کرنا کن مفادات کے تحت ہے؟ امریکی پالیسی رہی ہے کہ خطے میں اسلحے کی دوڑ میں اس کا حصہ زیادہ ہو۔ 10برس قبل تک بھارت اپنی دفاعی ضروریات کا 70فیصد سامان روس سے خریدتا تھا لیکن اب اس میں کافی حد تک کمی آئی ہے اور نئی دہلی تقریباً 25فیصد دفاعی ضروریات ماسکو سے پوری کرتا ہے۔
پاکستان کیلئے، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو توازن میں رکھنا ایک چیلنج ہے۔ پاکستان کا اسٹریٹجک توازن اسی امر پر منحصر ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، جوکہ بھارت کے روایتی فوجی طاقت کے مقابلے میں ایک اہم توازن فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کی فروخت اس امر کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے کیونکہ بھارت جنگی اسلحہ کے حصول کے جنون میں پورے خطے میں ایک نئی اسٹرٹیجک دوڑ کو جنم دے چکاہے۔ پاکستان کیلئے دفاعی پابندیاں، جیسے کہ امریکی میزائل پروگرام پر عائد پابندیاں بھی ہیں، ان حالات میں بھارت کی عسکری جدیدیت، امریکہ کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ، پاکستان کیلئے مزید چیلنجز کا باعث بن سکتی ہے، جس سے کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
پاکستان اس بڑھتی ہوئی بھارت-امریکہ شراکت داری کو اپنے لئے ایک سنگین چیلنج سمجھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے امریکہ- بھارت دفاعی معاہدوں کیخلاف عالمی فورمز پر احتجاج کیا ہے اور یہ موقف اپنایا ہے کہ یہ معاہدے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان نے اس پر زور دیا ہے کہ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی اس خطے میں مزید جوہری اسلحہ کی دوڑ کا باعث بنے گی۔ پاکستان نے اس صورتحال کے پیش نظر اپنی جوہری حکمت عملی کو مزید مستحکم کیا ہے۔ ’’مکمل سٹرکچرڈ رکاوٹ‘‘(Full Spectrum Deterrence)کی حکمت عملی کے تحت پاکستان نے مختلف نوعیت کے میزائل سسٹمز کی ترقی پر زور دیا ہے، جن میں ہائپر سونک اور سمندری میزائل شامل ہیں۔ پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی جدید ٹیکنالوجی کے مقابلے میں وہ جوہری سطح پر اپنے دفاعی مفادات کو مضبوط رکھے۔
دفاعی تعلقات کے ساتھ ساتھ امریکہ اور بھارت کے تجارتی تعلقات میں بھی تیزی آئی ہے۔ دونوں ممالک نے 2030تک دوطرفہ تجارت کو 500ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف رکھا ہے۔ بھارت نے امریکی ایل این جی اور خام تیل کی درآمدات بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، جبکہ امریکہ نے بھارت کی زرعی مصنوعات کیلئے اپنی منڈیوں کو کھول دیا ہے۔ ان اقتصادی تعلقات کا مقصد صرف بھارت کے تجارتی خسارے کو کم کرنا نہیں، بلکہ بھارت کو امریکہ کے اقتصادی مفادات کا مرکز بنانے کی کوشش بھی ہے۔ تاہم، ان تجارتی تعلقات کے دوران بعض چیلنجز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت کی برآمدات، جیسے کہ ٹیکسٹائل، امریکی صنعتی اور تکنیکی سامان کی طلب سے متصادم ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدوں میں کچھ پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ پاکستان نے ان ترقیاتی تعلقات کے مقابلے میں اپنی حکمت عملی کو مزید مستحکم کیا ہے۔ سی پیک میں چین کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھایا جارہا ہے تاکہ بھارت کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
پاکستان کیلئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی دفاعی تعلقات نہ صرف دفاعی توازن کو متاثر کر سکتی ہیں، بلکہ ان تعلقات کے نتیجے میں کشمیر جیسے حساس مسائل پر کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ کشمیر میں بھارت کی فوجی موجودگی اور لائن آف کنٹرول پر ممکنہ کشیدگی کا اثر پورے خطے پر پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی داخلی سلامتی اور معیشت بھی ان بین الاقوامی تعلقات سے متاثر ہورہی ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں اور اربوں ڈالر کے نقصان کو نظرانداز کرکے اپنے اعلامیہ میں پاکستان مخالف بھارت کے موقف کو اپنانا، خطے میں امریکی صدر کی ترجیحات میں یکطرفہ رجحان سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کے آثار نمایاں ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
امریکہ اور بھارت کے تعلقات نے جنوبی ایشیا کی سکیورٹی صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے، اور پاکستان کیلئے ان تعلقات کا اثر بہت سنگین ہے۔ دفاعی، تجارتی اور سیاسی میدان میں ہونے والی تبدیلیاں پاکستان کیلئے چیلنجز اور مواقع دونوں لے کر آئی ہیں۔ بھارت کی جانب سے روس اور امریکہ جیسی طاقتوں سے جنگی ساز و سامان کی خریداری نہ پاکستان بلکہ خطے کی سلامتی و امن کیلئے سنگین تشویش کا باعث بن رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے، اپنی جوہری حکمت عملی کو مزید مستحکم کرنے اور عالمی فورمز پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button