حکمران اور عوام

محمد اسلم وٹو
حکمران عوام کی مشکلات کم کرنے اور مسائل حل کرنے کا عزم لے کر برسر اقتدار آتے ہیں۔ ان کی طرف سے عوامی مفاد کی ترجیح کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کر دینے کے وعدے کیے جاتے ہیں تاکہ ملک میں ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومے اور ملک و قوم کا مستقبل روشن ہو۔
بد قسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے 25کروڑ عوام کو قیام پاکستان سے لے کر تاحال یہ دعوے اور وعدے حقیقت میں تبدیل ہوتے نظر نہیں آئے۔ عوام کو بنیادی حقوق ملے اور نہ ہی ان کے بنیادی مسائل حل ہوئے۔ حکومتیں بدلتی رہیں۔ نام نہاد جمہوری دور بھی آیا اور مارشل لاء کا ڈنڈا بھی چلتا رہا مگر عوامی مسائل کی دلدل گہری سے گہری ہوتی گئی۔ عوامی مشکلات میں کمی نہ آ سکی۔
عوام نے سیاست دانوں کو اپنا مسیحا سمجھ کر۔ آوے ای آوے، ساڈا لیڈر شیر اے، باقی سب ہیر پھیر اے اکے نعرے بھی لگائے اور مردِ مومن مردِ حق کی صدائیں بھی بلند کیں مگر ان کا مقدر بدلنا تھا نہ بدلا۔ عوام کی دہلیز پر مسائل قطار باندھے کھڑے رہے۔
عوام کو چاروں صوبوں کی زنجیر میں بھی بھیڑ بکریوں کی طرح باندھا گیا اور شیر کے آگے ڈھیر بھی کیا گیا لیکن مسائل کا طوق بدستور عوام کے گلے کا ہار بنا رہا۔ بحران جنم لیتے رہے، مشکلات بڑھتی رہیں۔ مسائل کا مستقل حل تلاش کرنے، بحرانوں کے اسباب کو جاننے اور بنیادی مصائب کی بیخ کنی کرنے کی بجائے طوطا چشم پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہر دور کے حکمرانوں نے اپنا ڈنگ ٹپانے کے لیے وقتی پالیسی بنائی اور اپنا دورِ حکومت پورا کرنے کی کوشش کی جس سے ملک وقوم کا انتہائی نقصان ہوا۔
سب سے پہلے پاکستان کے پُرفریب نعرے کو بھی عوام نے امید کی کرن سمجھ کر قبول کر لیا مگر اس نے چند سکوں کے بدلے قوم کے افراد اور بیٹیوں کو دشمن کے ہاتھوں بیچ دیا۔ بنیادی مسائل اژدھا بن کر عوام کو نگلتے رہے لیکن انہیں درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ایک مرتبہ پھر جمہوری زمانہ آیا، عوام نے تیر اور شیر کی حکمرانی میں خود کو محفوظ سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے شریفوں اور زرداری کے دامن میں پناہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پھر پاکستانی عوام کو تبدیلی کی پر کیف اور پر سرور آواز سنائی گئی۔ مستی کے عالم اور بے خودی کی کیفیت میں مرد و خواتینk جوان اور بچے بڑی تعداد میں اس آواز کی طرف لپکے لیکن یہ تجربہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ مسائل جوں کے توں رہے۔ اب ایک بار پھر سیاست قربان کرکے ریاست کو بچانے کا راگ الاپتے ہوئے ماضی میں ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے والے آپس میں شیر و شکر ہو کر ایک پلیٹ فارم اکٹھے ہوگئے ہیں۔ مل کر ریاست بچانے کے لیے کل کے حریف آج کے حلیف بن گئے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والا اڈیالہ جیل میں بیٹھا ہوا ہے۔ تجربہ کار سیاست دان باجماعت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔ حکمران طبقہ شب و روز اعلان کر رہا ہے کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر دوڑ رہا ہے۔ ہر طرف خوشحالی ہے۔ ریاست ڈیفالٹ ہونے سے بچ گئی ہے۔ حکمرانوں کے خیال میں عوام کے گھروں میں شہنائیاں بج رہی ہیں جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
بل آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء خور و نوش پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ مسائل قطار در قطار ہر گھر کے آنگن میں پہاڑ بن کر کھڑے ہیں۔ مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ چولہے ٹھنڈے اور دماغ گرم ہو رہے ہیں۔ عوام بھاری بھر کم بل جمع کرانے کے لیے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی اب ایک وقت پر بمشکل میسر آرہی ہے۔ ہر شہری پریشان اور ہر چہرے پر بے اطمینانی کے آثار واضح دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی مشکلات سے نا واقف حکمران ٹولہ کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اور
عوامی مسائل میں کمی آرہی ہے۔ ان کو کون بتائے کہ قومی وسائل پر قابض حکمرانوں کا جہاں اور ہے اور غربت کی آگ میں جلتے اور مہنگائی کی چکی میں پستے غریب عوام کا جہاں اور ہے۔ ان دونوں جہانوں میں زمین و آسمان جتنا فرق ہے۔ قصرِ اقتدار کے مکین دشتِ غربت میں بھٹکتے عوام کا دکھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اقتدار کے سورج کو مفلسی کی رات کا دکھ کہاں معلوم؟