ColumnTajamul Hussain Hashmi

ایوان میں سیاست دان

تجمل حسین ہاشمی
گزشتہ دنوں اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈر پر سپیکر سینیٹ یوسف رضا گیلانی کچھ ناراض نظر آئے لیکن وہ کیا کرتے اس دفعہ وزیراعظم شہباز شریف صاحب ہیں، بے نظیر کا دور کہاں جو ان کی سنی جاتی، بی بی شہید دنیا میں نہیں رہیں، ویسے یوسف رضا گیلانی صاحب ٹھنڈے اور کامیاب سیاست دان ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اچھا تعلق رکھتے ہیں۔ جمہوری سوچ رکھتے ہیں اس لئے تھوڑے خفا ہوئے۔ ویسے سیاسی معاملات کو خوب سمجھتے ہیں۔ اسمبلی کے وقار و اہمیت پر لیڈروں کی طرف سے بڑے بڑے خطاب کئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود کئی مرتبہ منتخب سپیکر کی طرف سے جاری پروڈکشن آرڈر کو تکریم نہ دے سکے، جس کا قانون متقاضی ہے۔ قائد ایوان ایسے مسئلہ پر خاموش ہی رہتا ہے۔ عمران خان کی حکومت تھی، اختر مینگل کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کا تحریری معاہدہ تھا۔ اختر مینگل نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ’’یہ پارلیمنٹ ہے مغلیہ دربار نہیں، اس پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق فوری طور پر خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنا چاہئے۔‘‘ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ڈیسک بجا رہے تھے، جن کے خود کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہو چکے تھے، لیڈروں اور رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر ماضی میں بھی جاری ہوتے رہے ہیں اور کئی مرتبہ روکتے بھی رہے ہیں، پروڈکشن آرڈر آئینی آرڈر ہے، اس کی تکمیل ضروری ہے، اس کی تکمیل سے جمہوری عمل مضبوط ہوتا ہے، قانون کو تقویت ملتی ہے۔ جمہوری حکومتوں میں جب چیئرمین سینیٹ و اسمبلی سپیکر کے احکامات پر بجا آوری نہیں ہوگی تو پھر نظام پر سوالات اٹھیں گے۔ حکومت اس کی ذمہ دار خود ہے۔ سوالات کو دبانے کیلئے پیکا ایکٹ منظور کیا جا چکا ہے۔ سوچنے کی بات ہے جب ایوان میں قانون کی عمل داری نظر نہیں آئے گی تو پھر کیسے
نظام آگے چلے گا۔ ایوان ہی تو 25کروڑ عوام کے سپیکر ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست دانوں کو سچ بولنے کی ضرورت ہے۔ اختر مینگل سیاست میں کئی بار کئی سچ بول چکے ہیں۔1998میں میاں نواز شریف نے اختر مینگل کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اختر مینگل اس وقت صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے پیغام بھجوایا کہ وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیدو ورنہ تمہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیں گے۔ بلوچستان حکومت کو ڈیڑھ سال بمشکل ہوا تھا ۔ اختر مینگل نے جوڑ توڑ کی بجائے حکومت ہی چھوڑ دی۔ ان کے والد سردار عطاء اللہ مینگل بھی 1972میں وزیراعلیٰ بلوچستان تھے ۔ ان کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے ختم کر دیا تھا۔ اقتباس ’’سچ بولنا منع ہے۔ ضیاء دور میں بھٹو صاحب کو ضیاء دور میں اور مشرف دور میں اختر مینگل کو بھی کراچی کی ایک عدالت میں جس طرح پیش کیا جاتا رہا سب کے سامنے ہے۔ ہمارے ہاں جس کو طاقت اور اختیار ملا وہ ظلم زیادتی میں برابر کا شریک جرم رہا۔‘‘ یہ سلسلہ اب ایوانوں سے نکل کر گلی گلی میں پھیل چکا ہے۔ اب حکومت کی طرف رفو گیری نہیں موثر نہیں ہوگی ۔ حقیقی خدمت کرنی پڑے گی۔ شعور رکھنے والا فرد اس بات کو لے کر پریشان ہے کہ آخر کب اور کس طرح سے یہ نظام بہتر ہوگا۔ درمیانے درجے کی زندگی کو اس وقت بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت جادو والی ترقی ثابت کرنا چاہ رہی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ ملک میں انکم ٹیکس کا مجموعی گیپ 2400ارب روپے ہے۔ اس سے کیسے ترقی ثابت ہوگی۔ معیشت کے حوالہ سے کوئی ایکشن، مضبوط عمل داری نظر نہیں آرہی، جس سیکٹر کے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوتا ہے اس کی ٹیکس وصولی میں کمی ہو جاتی ہے لیکن حکومت اپنی موجوں میں ہے۔ حکومت کی طرف کروڑوں روپے کے اخبارات میں اشتہارات سے مالکان مضبوط اور صحافی ملازم تنخواہ سے محروم ہیں۔ ملکی صورت حال کو لے کر غیر ملکی مالیاتی ادارے اتنے متحرک ہو چکے ہیں کہ سرکاری اداروں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں، آج 20سال بعد عالمی بینک کے 9ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی آمد ہے۔ غیر ملکی مالیاتی ادارے بہت زیادہ سنجیدہ ہیں ، وفد سندھ بلوچستان ، پنجاب اور کے پی کے بھی جائیں گے، 40ارب ڈالر کی فنڈنگ کے عمل درآمد پر بات چیت ہو گی لیکن ہمارے ہاں سیاست میں غیر سنجیدگی کے کئی واقعات روزانہ کی بنیاد پر رقم ہورہے ہیں۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ہمیں ماضی کی پوتاڑیوں سے جان نہیں چھوڑتے۔ ’’سیاست میں اپنے کئے کو تسلیم کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں قانون کی پامالی کا ذمہ دار طاقتور ہی ہے۔ غریب تو بھوک سے خود کو ہی مار رہا ہے ، کہیں بھی چلے جائیں لوگ اپنی پریشانیاں لے کر لائن میں کھڑے صبح سے شام تک نظر آئیں گے۔ کہیں پر کوئی سسٹم نظر نہیں آتا۔ حکمرانوں کے بلند و بالا دعوے ہیں ، کوئی پاکستان میں تبدیلی لانا چاہتا ہے، کوئی سڑکوں سے معیشت بہتر کرنا چاہتا ہے۔ وزیر خزانہ تسلیم کر چکے ہیں کہ عام آدمی تک فوائد نہیں پہن رہے۔ جن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا چاہئے وہ نہیں کر رہے۔ آج ابتدائی سالوں میں قائم منصوبوں کو ناکارہ ثابت کیا جا چکا ہے، اب ان منصوبوں پر ذاتی مفادات پر اکٹھے نظر آتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button