مودی امریکہ اردوان پاکستان

تحریر : سیدہ عنبرین
بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا دورہ امریکہ کئی اعتبار سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اپنے دورے کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پریس کانفرنس کے موقع پر انہوں نے اپنے کوٹ کی جیب سے کچھ پرچیاں نکالیں، پھر ان میں درج نکات کے حوالے سے ہندی میں گفتگو شروع کی، یوں اب وہ پرچی پرائم منسٹر گروپ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ماضی میں یہ اعزاز صرف پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم کے پاس تھا، انہوں نے امریکہ کے دورے کے موقع پر امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی تو نصف درجن پرچیاں ان کے ساتھ میں تھیں، وہ کبھی اوپر والی پرچی کو نیچے اور نیچے والی پرچی کو اوپر کرتے نظر آئے، ان کے ساتھ جانے والے بتاتے ہیں کہ اس موقع پر ان کا سرخ و سفید رنگ قدرے پیلا پڑ چکا تھا، ہونٹ کپکپا رہے تھے، لفظ ٹھیک طرح ان کی زبان سے ادا نہ ہو رہے تھے، پھر کچھ عرصہ بعد تاریخ نے ایک اور منظر دیکھا، ایک پاکستانی وزیراعظم پاکستانی لباس شلوار قیمض میں ملبوس ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک دھڑلے سے پریس کانفرنس میں بیٹھا تھا، اس کے ہاتھ میں کوئی پرچی تھی نہ اس کا رنگ پیلا پڑا، ٹرمپ نے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے دفتر کی سیر کرائی، اس دوران وہ مسلسل ٹرمپ سے ہم کلام رہا اور ٹرمپ اس کی باتیں غور سے سنتا رہا۔ وائٹ ہائوس ٹور کے دوران میلانیا ٹرمپ ہمراہ تھیں، جب سب واپس آ کر بیٹھنے لگے تو میلانیا ٹرمپ نے اس کے ساتھ ایک تصویر بنوانے کی فرمائش کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ساتھ آ کر کھڑے ہو گئے، تصویر بن چکی تو میلانیا ٹرمپ نے اس کے ساتھ ایک علیحدہ خصوصی تصویر بنوائی۔ پاکستان کا یہ وزیراعظم کسی امریکی میم سے متاثر نہیں ہوا، وہ ان سے بہتر انگریزی میں ان کے ساتھ گفتگو کرتا رہا۔ بعد ازاں اس نے پریس کانفرنس میں امریکی اور دیگر غیر ملکی صحافیوں کو متصل جواب دینے شروع کئے تو سوال ختم ہو گئے، جو اب باقی تھے اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس ختم کر دی۔
مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر اس کی نصف سے زیادہ ریاستیں برف میں ڈھکی ہوئی تھیں۔ پورا امریکہ ٹھٹھرا ہوا تھا لیکن نریندرا مودی تو گویا برف میں جم چکا تھا، بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والا اور جھکنے والا مودی یوں چپ چاپ تھا جیسے اس نے چلنا پہلے سیکھ لیا ہے باتیں کرنا ابھی نہیں سیکھا۔ مودی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس لئے بھی زیادہ لفٹ نہ دی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مودی کو اس کے عوام نے مسترد کر دیا ہے، اسے انتخابات میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہو سکی اور بھارتی ڈیپ سٹیٹ نے اپوزیشن جماعتوں کو بلیک میل کرتے ہوئے انہیں مودی کی حمایت پر مجبور کیا اور حکومت اس کی جھولی میں ڈالی۔
امریکہ میں اپنے دورے کے دوران کئی سو ملین ڈالر کی حکماً خریداری وعدے کرنے والے بھارتی وزیراعظم کا یہ مختصر ترین دورہ تھا، وہ صرف ایک روزہ دورے پر امریکہ پیشی بھگتنے گئے۔ امریکی حکومت نے انہیں ایک روز سے زیادہ برداشت نہ کیا اور مطلب نکالنے کے فوراً بعد چلتا کیا۔
کوڈ کے زمانے میں بھارت نے امریکہ سے بے تحاشا مفادات حاصل کئے، اب بھارت ٹرمپ کے ریڈار پر آ چکا ہے، جو بغور دیکھتا رہے گا کہ بھارت سے کیا آ رہا ہے اور امریکہ سے کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو ففتھ جنریشن ایئر کرافٹ ایف 35فروخت کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے، بھارت اس سے قبل روس سے جہازوں کے معاملے میں ایک ڈیل کر چکا ہے، جس پر 50فیصد عمل بھی ہو چکا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اس سے الیکٹرک کاریں بھی خریدے، جبکہ بھارت ایک دوراہے پر آ کر رک چکا ہے، چین نے امریکہ کی نسبت بہت کم قیمت میں الیکٹرک کاریں تیار کر دی ہیں، اب انہیں چھوڑ کر وہ مہنگی کاریں امریکہ سے لے بھی لے تو اسے بھارت میں کون خریدے گا۔ مزید برآں بھارت غیر ملکی تعاون سے اپنے یہاں الیکٹرک کاریں تیار کرنے کے منصوبے پر بہت آگے جا چکا ہے۔
امریکہ نے تمام ممالک سے درآمد کردہ سامان پر اتنی ہی ڈیوٹیاں، ٹیکس لگانے کی بات کی ہے جتنی وہ ملک امریکی سامان پر لگاتے ہیں، اس فیصلے کے بھارت کی ایکسپورٹ اور اس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، بھارت کو ایک آسانی حاصل ہے کہ اس کے پاس بجلی سستی ہے، ٹیکس کم ہیں، سرکاری سطح پر کرپشن کم ہے اور منی لانڈرنگ پاکستان کے مقابلے میں تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ 70برس میں آنے والے کسی بھارتی وزیراعظم یا اس کی اولاد کا ایک فلیٹ، اپارٹمنٹ یا ایک مرلہ زمین بھی امریکہ برطانیہ یورپ یا کسی خلیجی ملک میں نہیں ہے، مگر ان تمام حقائق کے باوجود امریکہ کی طرف سے اعلانیہ منی ٹریڈ اینڈ ٹیرف پالیسی سے بھارتی حکومت اور سرمایہ داروں نے سر پکڑ لئے ہیں، کبھی ان کی پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں ہوتے تھے مگر اب نہیں۔
بھارتی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ جب قریباً 10لاکھ بھارتی آئی ٹی ماہرین، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی طور پر امریکہ گئے افراد واپس بھیجے جائیں گے تو جنتا ہاتھوں میں جوتے پکڑ کر حکومت کے پیچھے پڑ جائے گی اسے کیا جواب دیا جائے گا اور انہیں کیا منہ دکھایا جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کئے ٹیرف کم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن اس سے بھی وہ گھمبیر مسائل حل نہ ہوں گے جو آج اسے درپیش ہیں۔ نریندرا مودی کو بھارت پہنچنے پر ہر طرف سے ایک سوال کیا جا رہا ہے کہ آپ امریکہ کی جھولی میں بہت کچھ ڈال آئے ہیں بھارت کیلئے کیا لائے ہیں تو مودی کے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب موجود نہیں۔ یہ سوال عوام کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن جماعت ان کے سامنے رکھے گی، مودی کے پاس منہ چھپانے کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گا۔
امریکہ نے بھارت کو ٹریڈ میں من پسند سہولتیں دینے سے انکار کرتے ہوئے کیا ہے کہ جو سہولتیں آپ ہم سے مانگ رہے ہیں وہ تمام دنیا بھی چاہتی ہے، لہٰذا اب تمام دنیا سے ایک جیسا سلوک کرنا ہو گا۔ امریکہ میں مقیم غیر قانونی بھارتیوں کے انخلا سے سلیکون ویلی میں افرادی قوت کی گنجائش بڑھے گی، دیکھنا ہے دنیا کے دیگر ممالک اور بالخصوص پاکستان اور چین اپنی افرادی قوت کو وہاں پہنچانے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکہ کی کسی یونیورسٹیوں میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں چینی طلبا زیر تعلیم ہیں امریکی ریاست اوہائیو کے آکسفورڈ ٹائون میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے بریک میں ہر طرف اتنی بڑی تعداد میں چینی طلبا نظر آتے ہیں، جنہیں دیکھ کر کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہم چین کی کسی یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ ہم برادر اسلامی ملک ترکیہ کے سربراہ حکومت کی پاکستان پر بچھے بچھے جا رہے ہیں۔ فقید المثال استقبال کرتے ہوئے نہال ہوتے ہوئے اب نڈھال ہونے کو ہیں، یہ معلوم نہیں ہو سکا وہ ہمیں دے کر کیا گئے ہیں؟۔