راشد منہاس کا 74واں جنم دن

تحریر : رفیع صحرائی
جو لوگ اپنے وطن پر جان قربان کر دیتے ہیں وہ اپنا اور ملک کا نام زندہ کر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ ان کی شہادت قوم کو زندگی بخش دیتی ہے۔ ملک و قوم کو ایسے جاں نثاروں پر ناز ہوتا ہے۔اب تک پاکستان ایئر فورس کی جانب سے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر پانے والے واحد پائلٹ آفیسر راشد منہاس ہیں جنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اب تک سب سے کم عمر فوجی جوان ہیں جنہیں نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔ راشد منہاس شہید 17فروری 1951ء کو شہر قائد کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام عبدالمجید تھا جو راجپوتوں کے قبیلے منہاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا تعلق جموں کشمیر کے علاقے گورداس پور سے تھا۔ عبدالمجید دوسری جنگ عظیم میں سول انجینئر کی حیثیت سے برٹش آرمی میں شامل ہوئے تھے۔ ایران اور عراق میں کچھ عرصہ تعینات رہے۔ انہوں نے برما اور آسام کے محاذوں پر بھی خدمات انجام دیں۔ ان کی پوسٹنگ دہلی میں تھی۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو عبدالمجید اپنی بیوی رشیدہ بیگم اور تین ننھی سی بیٹیوں کے ساتھ کراچی آ گئے۔ ان کے ہاں پہلے بیٹے راشد منہاس کی پیدائش17فروری 1951ء کو ہوئی۔ راشد کی بچپن ہی سے ایئر فورس میں بطور پائلٹ بھرتی ہونے کی شدید خواہش تھی۔ سینٹ پیٹرک سکول کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دوران راشد منہاس ہمیشہ نصاب کی بجائے دوسری کتابوں پر توجہ دیتے تھے۔ جنگی ناول، مہماتی کہانیاں، تاریخی کتابیں اور انگریزی شاعری ان دنوں ان کی توجہ کا مرکز تھے۔ راشد کو شروع ہی سے ڈائری لکھنے کا شوق تھا۔ ان کی ڈائری اقوالِ زریں اور حب الوطنی پر مبنی تحریروں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ان کی ڈائری کے ایک ورق سے ہی ہمیں پتا چلتا ہے کہ اگست کی ایک رات انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ فضائیہ میں بھرتی ہونے کی پوری کوشش کریں گے اور اگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو ہوا بازی کے دیرینہ شوق کو خیرباد کہہ کر بری یا بحری فوج میں چلے جائیں گے۔
راشد نے پاکستان ایئر فورس میں بھرتی کے لیے اپلائی کر دیا اور ساتھ ہی سائنس کالج میں بھی داخلہ لے لیا تاکہ وقت ضائع نہ ہو۔ ان کا مقدر یاوری کر رہا تھا۔ ایئر فورس کی طرف سے انٹرویو کال آ گئی اور اس کے بعد باقی مراحل بھی طے ہوتے چلے گئے۔ 1969ء میں جب راشد منہاس پی اے ایف اکیڈمی رسال پور میں پڑھ رہے تھے تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں راحت اور انجم کو ایک خط لکھا تھا جس سے ان کی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے لکھا تھا ’’ تم اس دنیا میں آنے کا کوئی نہ کوئی مقصد رکھتے ہو۔ تمہارے یہاں ہونے کی وجہ ہے اور اس کی تکمیل کرنا تمہارا کام ہے۔ تم خود فیصلہ کرو کہ اس دنیا کی دیوہیکل مشینری میں تم کہاں فِٹ ہوتے ہو۔ بہت جلد لوگوں کی نظرِانتخاب تمہاری جانب ہو گی۔ ہو سکتا ہے قوم کی رہنمائی کے لیے۔ ان کی توقعات پر پانی نہ پھیر دینا۔۔۔۔ ایک ایسا انسان بنو کہ لوگ تم پر فخر کریں‘‘۔
راشد منہاس کو ابھی دو سال پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس نے اپنے وطن اور اپنی فوج کی آبرو کی خاطر جان دے کر دکھا دیا کہ عظمتیں کیسے حاصل کی جاتی ہیں اور قابلِ فخر انسان کیسے بنا جاتا ہے۔1970ء کے آخری مہینوں میں ملک میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ انتخابات ہوئے تو مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی جبکہ مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) کی تقریباً تمام نشستیں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے جیت لیں۔ سیاسی تعطل پیدا ہوا اور ملک پر بے یقینی کے سائے لہرانے لگے۔ راشد منہاس کی پوسٹنگ پی اے ایف مسرور بیس کراچی میں ہو چکی تھی۔ ایئر فورس کا ایک بنگالی پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان بھی اسی بیس پر تعینات تھا۔ اس نے جون 1963ء میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ وہ مسرور بیس پر ڈپٹی سیکیورٹی آفیسر تھا۔ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونے کے بعد فضائیہ کے بنگالی افسروں کو فضائی خدمات سے ہٹا کر زمینی ذمہ داریوں تک محدود کر دیا گیا تھا۔ مطیع الرحمان بنگلہ دیش کا حامی تھا اور پاکستان سے فرار ہو کر مکتی باہنی میں شامل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس نے ایک منصوبہ بنایا۔ یہ 20اگست 1971ء کی ایک صبح تھی۔ راشد منہاس اپنی تیسری تنہا پرواز کے لیے تیار ہوا۔ وہ ٹارمک پہنچا اور اپنے طیارے ٹی 33جیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ طیارے کو ٹیکسی کر رہا تھا کہ اچانک مطیع الرحمان دوڑتا ہوا نمودار ہوا اور زبردستی طیارے میں گھس گیا۔ 11بج کر 29منٹ پر اچانک کنٹرول ٹاور کو وائرلیس پر پیغام ملا۔ ’’ ون سکس سکس ہائی جیکڈ‘‘ (166 راشد منہاس کے طیارے کی اس روز کے لیے کال سائن تھی) یہ آواز راشد منہاس کی تھی۔ کاک پٹ کے اندر وہ مطیع الرحمان کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ طیارہ اوپر نیچے اور دائیں بائیں ہچکولے کھا رہا تھا۔ مطیع الرحمان نے سر پر ضرب لگا کر راشد کو بے ہوش کر دیا اور طیارے کا رخ بھارت کی طرف موڑ دیا۔ اس وقت جب ہندوستان سے فاصلہ چالیس میل رہ گیا تھا تو راشد منہاس کو ہوش آ گیا۔ اس نے دوبارہ طیارے پرکنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اسے یہ جنگ بہرحال جیتنا تھی اور طیارے کو بھارت میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ کوئی چارہ نہ پا کر اس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف موڑ دیا۔ اسے اپنے وطن اور اپنی فوج کی آبرو کی حفاظت کرنا تھی۔ وہ سرخرو ہوا۔ جنڈی کے مقام پر طیارہ گرا اور تباہ ہو گیا۔ راشد منہاس شہید ہو کر قوم کے ہیرو بن گئے جبکہ مطیع الرحمان ہلاک ہو کر غدار کہلایا۔ راشد منہاس کو 21اگست 1971ء کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔ حب الوطنی کے اس عظیم جذبے پر راشد منہاس کو بعد از شہادت پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا۔ اٹک کے کامرہ ایئر بیس کو راشد منہاس کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
راشد منہاس نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنی ڈائری پر لکھے اس ورق کو سچ ثابت کر دکھایا کہ ایک شخص کے لیے سب سے بڑا اعزاز اپنے ملک کے لیے جان قربان کر دینا اور قوم کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔