Column

آگے کا راستہ تلاش کر نا ہے

تحریر : شاہد ندیم احمد

اس ملک میں بار بار مار شل لاء کے بعد بار بار ہی جمہوریت آئی ہے، مگر ہر دور اقتدار میں عوام کو ظلم و جبر اور بے انصافیوں کا ہی سامنا کر نا پڑا ہے، اس دور حکومت میں بھی ایک طرف مذاکرات کا کھیل کھیلا جارہا ہے تو دوسری جانب ایک کے بعد ایک خط لکھا جارہا ہے، اس کے در میان میں پیکا ایکٹ کے عذاب سے بھی گزارا جارہا ہے، جو کہ زیادہ دیر تک چل نہیں پائے گا ، کیو نکہ حق و سچ کی آواز کا سفر آج تک کہیں رکا ہے نہ ہی کہیں رکے گا، اس کو روکنے والے زمانے کی چال میں خود ہی کہیں روندھے جائیں گے اور حق و سچ کی آواز بلند کر نے والے آگے بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔
اس وقت دیکھا جائے تو ریاست اور سیاست کے ساتھ ہر ادارے میں ٹکرائو نظر آ رہا ہے، یہ ریاست کے نظام کے لیے خود ایک خطرناک علامت ہے، کیونکہ اگر ریاستی نظام سے جڑے اداروں میں باہمی ٹکرائو پیدا ہو جائے ، ایک دوسرے پر بد اعتمادی پیدا ہو نے لگے، ایک دوسرے کے خلاف بالادستی کی جنگ لڑی جانے لگے تو پھر ایسے میں ریاست کا نظام کیسے چل پائے گا، اگرچہ اصولی طور پرتو سب کی ہی بقا کا تعلق اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے سے جڑا ہے، لیکن ہمارا ایک ہی مسئلہ رہاہے کہ ہمارے ادارے اپنا کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں یا ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت کر کے ریاست اور جمہوریت کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور مانتے ہیں، اس کے باوجود کوئی سنجیدگی سے سوچ رہا ہے نہ ہی کوئی سنجیدہ فیصلے کر رہا ہے، یہاں ہر کوئی اپنے مفاد میں سوچ رہا ہے اور اپنے ہی مفاد کو ہی تقویت دینے میں لگا ہوا ہے، اس کے باعث ہی ریاست کا پورا نظام ذاتیات کے نظام کی عکاسی کر رہاہے، یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں اور ہم بتا کیا رہے ہیں اور دکھا کیا رہے ہیں، ہم جب ریاست کو مضبوط کرنے کی آڑ میں ہر ادارے کو کمزور کریں گے یا اس کو ایک ریموٹ کنٹرول سے چلانے کی کوشش کریں گے اور اس کی آزادی و خود مختاری سلب کر نے کی کوشش کریں گے تو پھر ایسی ریاست میں جمہوریت کا تصور ختم ہو کر رہ جاتا ہے، اس وجہ سے ہی بہت سے لوگ آج کے پاکستان میں موجود جمہوری نظام کو آمرانہ نظام سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ان کے بقول آمرانہ نظام میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے، جو کہ آج جمہوریت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
اس حکومت کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے نہ ہی عوام کی حمایت حاصل کر پا رہی ہے، اس لیے ہی ریاست زیادہ مشکلات کی شکار دکھائی دیتی ہے، وہ اپنے نظام کی ساکھ بنا پا رہی ہے نہ ہی جمہوری نظام بحال کرپا رہی ہے، اس کا ادراک ریاست اور حکومت سے جڑے افراد کو ہونا چاہیے کہ جس نظام کو ساتھ لے کر چلنا چاہ رہے ہیں، اس سے ریاست کا نظام نہیں چل سکے گا، لیکن اگر وہ بضد ہی رہتے ہیں اور اس نظام کوہی لے کر آگے چلتے ہیں تو اس سے جہاں جمہوریت کو مزید نقصان پہنچے گا، وہاں ریاست بھی کمزور ہوگی، ریاست کے نظام کو پہلے ہی بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، اب معاملات محض داخلی سیاست تک محدود نہیں رہے ہیں، بلکہ علاقائی اور خارجی سطح پر بھی پاکستان کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں، لیکن کیا اس ملک کے اہل سیاست اور اہل ریاست اپنی اصلاح کرنے یا اپنی سمت درست کرنے کے لیے تیار ہے، یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے اور اس پر غور کیا جانا چاہیے، کیونکہ ہر نظام اصلاحات کی بنیاد پر ہی آگے چلتا ہے اور ہمیں اس نقطے کو بنیاد بناکر ہی آگے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔
اس پر خاص طور پر موجودہ نظام کے سہولت کاروں کو سب سے زیادہ غور کرنا چاہیے کہ ان کے طرز عمل سے جمہور اور جمہوریت کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے، اس وقت تمام سیاسی طبقات سمیت معاشرے کے دیگر طبقات کی جانب سے ایک بڑی جمہوری تحریک چلانے کی اشد ضرورت ہے، اس کا واحد ایجنڈا ملک میں جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی، منصفانہ اور شفاف انتخابات اور سیاسی نظام میں غیر جمہوری مداخلتوں کا خاتمہ ہو نا چاہئے، اگر اس ایک نقطہ پر قوم کو یکجا کرلیا جائے یا کوئی بڑا اتحاد بنا لیا جائے تو یقینی طور پر جمہوریت کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے، لیکن اس اتحاد کی بنیاد روایتی سیاست یا محض اقتدار کی سیاست تک محدود نہیں ہو نی چاہئے، بلکہ اس کی ترجیح اس ملک کی سیاسی اور جمہوری ساکھ کی بحالی ہو نی چاہیے تو ہی اس گرداب سے نکل پائیں گے اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر پائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button