Ali HassanColumn

آئی ایم ایف مشن کی چیف جسٹس سے ملاقات

علی حسن
آئی ایم ایف کے مشن نے پاکستان کی چیف جسٹس سے ملاقات کی، یہ ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس جناب یحییٰ آفریدی نے آئی ایم ایف وفد کو عدالتی نظام، اصلاحات پر بریف کیا۔ چیف جسٹس کی ججز تقرری اور آئینی ترمیم پر بھی وفد سے بات چیت۔ عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کے 6رکنی خصوصی وفد نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی، چیف جسٹس نے وفد کو عدالتی نظام اور اصلاحات سے متعلق آگاہ کیا۔ ایک نجی چینل کے مطابق ملاقات کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف کے وفد کو جواب دیا ہے کہ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ آپ کو ساری تفصیلات بتائیں، وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایا، وفد کو بتایا کہ ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ائی ایم ایف کے وفد نے کہا معاہدوں کی پاسداری، اور پراپرٹی حقوق کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں، میں نے جواب دیا اس پر اصلاحات کر رہے ہیں، وفد کو بتایا کہ آپ
بہترین وقت پر آئے ہیں، آئی ایم ایف وفد کو عدالتی ریفارمز، نیشنل جوڈیشل پالیسی سے آگاہ کیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2024ء جاری کر دیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے، پاکستان کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں تنزلی کے بعد 135نمبر پر آ گیا ہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی مزید نیچے آ گئی ہے، پاکستان کی درجہ بندی 27ہو گئی جبکہ 2023ء میں پاکستان کی درجہ بندی 29تھی۔ کرپشن میں پاکستان کی درجہ بندی 8مختلف ذرائع سے حاصل ڈیٹا پر کی گئی، 2023ء میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس میں مجموعی اسکور 233تھا جو 2024ء میں 216ہو گیا جبکہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی یا سزا کا انڈیکس اسکور بدستور 21رہا۔
جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف وفد کس سے پوچھ کر چیف جسٹس سے ملا؟ وزیر دفاع خواجہ آصف نے جواب دیا کہ آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کا وقت مانگا، چیف جسٹس نے ملاقات کا وقت دے دیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ فنانشل ڈسپلن میں عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے، اسی لیے آئی ایم ایف وفد چیف جسٹس سے ملا، آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس کی جانب سے ملاقات کا وقت ملنے پر ہی ملاقات کی ہے، اگر چیف جسٹس نہیں چاہتے یا ملاقات کا وقت نہیں دیتے تو شاید ملاقات نہیں ہوتی۔ امیر جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کے وفد کی عدلیہ سے ملاقات نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں منفرد واقعہ ہے۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں منفرد واقعہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ ( آئی ایم ایف) ہماری عدلیہ سے ملنا چاہتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیوں ملے ہیں، ان کا کس طرف اشارہ ہے؟ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ لگتا یہ ہے کہ بہترین معیشت کا تعلق عدل و انصاف کے ساتھ ہے اور ان کو ہمارے عدل و انصاف پر تحفظات ہیں، شاید اس وجہ سے ملے۔
یہ ملاقات باعث تشویش اس لئے ہے کہ آئی ایم ایف کو حکومت کی کارکردگی پر اطمینان نہیں ہے اسی لئے یہ ملاقات ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف یا دیگر مالیاتی اداروں نے بھی حکومت اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیں۔ آزاد ذرائع کا خیال ہے کہ حکومت غیر ملکی اداروں سے جو بھی رقم بطور قرضہ لے رہی ہے ، اس کی واپسی بھی تو اہم سوال ہے۔ کوئی ادارہ ہو، مالیاتی ادارہ ہو یا کوئی ملک ہو جیسے چین، اسے مطمئن ہونا چاہئے تاکہ اعتماد بحال رہے اور اسے یقین رہے کہ اس کی دی ہوئی رقم محفوظ ہے۔
ہمارا لائف اسٹائل یا رہن سہن کا طریقہ بذات خود سوال کھڑے کرتا ہے۔ پاکستان جس انداز میں مقروض ہے اس صورت میں پاکستان کے حکمران طبقے کا رہن سہن تو قرضہ دینے والوں یا امداد دینے والوں میں تشویش کی لہر پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ آئی ایم ایف ہو یا کوئی اور ادارہ یا ملک ہو، اسے قرضہ دینے ( ادارہ فروخت کرنے ) سے ہی غرض نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ یقین دہانی بھی درکار ہوتی ہی کہ اس کی رقم محفوظ ہے جس کی واپسی یقینی ہے۔ لیکن حکمران طبقے کا رہن سہن ، اخراجات کی بھرمار، ملکی اخراجات کی بھرمار قرضہ دینے والوں کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔ حکومت بار بار کی یقین دہانی کے باوجود اپنے اخراجات اور حکومت کا حجم مختصر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ حکومت کو ان مقامات پر خرچہ کرنا پڑتا ہے جہاں پر امن حالات میں پیسہ محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ امن و امان کو مسئلہ ہے، عوام کی بنیادی سہولتوں کا مسئلہ درپیش ہے۔ بچوں کی تعلیم اور عام لوگوں کے روزگار کی سہولت جیسے اہم سوالات ہیں۔ حکومتیں تواتر کے ساتھ جائزہ لینے اور مناسب سدباب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں مسائل کے انبار لگ گئے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button