ColumnRoshan Lal

بولنے والے جج اور خاموش فیصلے

روشن لعل
آزادی اظہار کو عدلیہ سے وابستہ شخصیات کا بھی بنیادی حق سمجھنے والوں کا ماننا ہے کہ ججوں کو بولنے کا حق نہ دینا ان کی آزادی سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس خیال کے برعکس ، لوگوں کی بڑی اکثریت اس مقولے کو درست سمجھتی ہے کہ ججوں کو نہیں بلکہ ان کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔ اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ ماضی قریب میں بہت زیادہ بولنے والے ججوں کے رویے اکثر ان کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے رہے۔ چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنے والے ایسے ججوں سے ہر کوئی واقف ہے جو کسی کے گھر کریلے گوشت پکانے جیسے معاملات پر از خود نوٹس لینے کی شہرت رکھتے تھے۔ اسی طرح کے ایک چیف جسٹس اپنے عہدے کا وقار پامال کرتے ہوئے کسی ڈرگ انسپکٹر کی طرح ہسپتالوں میں چھاپے مارتے رہے۔
جو جج یہاں بہت زیادہ بولتے رہے ان کے فیصلوں کو اس لیے خاموش کہا جاسکتا ہے کیونکہ عدل کے ایوانوں میں ان کی گونج شاید ہی کبھی سنائی دی ہو۔ بہت زیادہ بولنے والے اکثر ججوں کے اپنے عہدوں سے ریٹائرمنٹ کے بعدخاموش اور گمنام زندگی گزارتے دیکھا گیا ، اس کے باوجود ہر دور میں اپنے بیانات کی وجہ سے خاص شہرت حاصل کرنے والا کوئی نہ کوئی جج سامنے آتا رہتا ہے۔ آج کل جن جج صاحب کے بیانات خاص شہرت حاصل کر رہے ہیں ان کا نام جسٹس منصور علی شاہ ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے ایک خیر خواہ وکیل سے جب راقم نے یہ پوچھا کہ زیادہ بولنے والے ججوں کی زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد غیر تابناک ثابت ہونے کے باوجود جسٹس شاہ آخر بیانات داغنے جیسے راستے پر
کیوں چل رہے ہیں تو اس نے جواب دیا جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ کوئی بھی فیصلہ پڑھ لو اس سے یہی ثابت ہوگا کہ اپنے پیش رو بولتے رہنے والے ججوں کے برعکس وہ صرف خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بھی بولتے ہیں۔ اپنے وکیل دوست کی باتیں سننے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کی عدلیہ میں کارکردگی پر نظر دوڑائی، اس کے بعد یہی سوچا کہ اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے یہاں جسٹس شاہ کے چند فیصلوں کا خلاصہ پیش کر دیا جائے تاکہ پڑھنے والوں کو خود ہی اندازہ ہو جائے کہ جو جج صاحب اس وقت بول رہے ہیں ان کے فیصلے بھی بولتے ہیں یا انہیں خاموش سمجھا جائے۔
سال 2010ء کے تباہ کن سیلاب کے دوران تین صوبوں خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ میں 1600قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، 4.5ملین لوگ بے روزگار ہوئے ، 20ملین کے قریب لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ نا پڑا، 7ملین طالب علموں کا تعلیمی سال ضائع ہوا اور قومی معیشت کو تقریباً 855بلین روپے کا نقصان پہنچا تھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجوہات جاننے کے لیے سندھ حکومت نے اپنے صوبے میں ریٹائرڈ جسٹس دیدار حسین کی سربراہی میں انکوائری کمیشن اور حکومت پنجاب نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی قیادت میں انکوائری ٹربیونل بنایا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے سندھ فلڈ انکوائری کمیشن کی رپورٹ رد کرتے ہوئے وفاقی سطح پر ایک
انکوائری کمیشن بنوایا جبکہ پنجاب کے فلڈ انکوائری ٹربیونل کو کام کرنے دیا گیا۔ جسٹس افتخار چودھری نے جو فلڈ انکوائری کمیشن بنوایا اس کا درپردہ مقصد اس وقت پیپلز پارٹی کی مرکز اور صوبہ سندھ میں قائم حکومتوں کو بدنام کرنا تھا ۔ گو کہ افتخار چودھری کے بنوائے گئے کمیشن سے زیادہ توقعات نہیں تھیں لیکن پھر بھی اس نے اپنا کام کسی نہ کسی حد تک غیر جانبداری سے کیا۔ جس طرح وفاقی فلڈ انکوائری کمیشن نے اپنی انکوائری کے دوران کچھ ایسے کام زیر غور لانے سے گریز کیا جن کی تہہ تک پہنچ کر غبن ، بدعنوانی اور کوتاہیوں جیسی باتوں کو منظر عام پر لایا جاسکتا تھا اسی طرح کا کام منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنائے گئے پنجاب فلڈ انکوائری ٹربیونل نے بھی کیا۔ فلڈ انکوائری کے دوران جن کاموں کو زیر غور لانے سے گریز کیا گیا وہ کام پاکستانی عوام کو سیلاب سے تحفظ دینے کے نام پر ایشین ڈیویلپمنٹ بنک سے لیے گئے 61.155ملین ڈالر کے قرض سی سال 2000ء سے سال 2007ء کے دوران سیکنڈ فلڈ پروٹیکشن سیکٹر پراجیکٹ کے تحت سے پورے پاکستان میں کیے گئی تھے۔ سیکنڈ فلڈ پروٹیکشن سیکٹر پراجیکٹ پورے پاکستان کے لیے تھا لیکن اس کی مد میں لیا گیا قرض سب سے زیادہ پنجاب میں خرچ ہوا۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بنک سے 61.155ملین ڈالر کا قرض عوام کو سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے لیا گیا تھا لیکن قرض کی اتنی بڑی رقم سے سیلاب سے تحفظ کے لیے کئے تعمیراتی کاموں کی تکمیل کے بعد جو پہلا سیلاب آیا اس نے ملک میں ماضی کے تمام سیلابوں کے دوران ہونے والی تباہیوں کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم انکوائری ٹربیونل کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ تھی اس کے اراکین یہ کھوج لگاتے کہ سیلاب کے تحفظ کے نام پر 61.155ملین ڈالر کا قرض خرچ کرنے کے بعد بھی پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کے لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں سے کیوں محفوظ نہ رہ سکے لیکن ان کی تیار کردہ انکوائری رپورٹ اس معاملے میں مکمل خاموش رہی۔
پنجاب حکومت نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر سال 2007ء میں نان گزیٹڈ کلریکل سٹاف کی تنخواہوں کے بنیادی سکیل بڑھانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ حکومت پنجاب نے جو سہولت کلیریکل سٹاف کو دی اس سے ڈرائنگ کے شعبے سے وابستہ نان گزیٹڈ سٹاف کو محروم رکھا۔ حکومت پنجاب کے اس امتیازی سلوک کے خلاف ڈرائنگ کے شعبے سے وابستہ ملازمین نے داد رسی کے لیے 2009ء میں آئین کے آرٹیکل 199کے تحت لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بننے سے پہلے اور بعد میں بھی پنجاب
حکومت کے ڈرائنگ سٹاف کی اس قسم کی ملی جلی درخواستوں پر سماعت کرتے رہے۔ ان درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے یہ تو تسلیم کیا کہ حکومت پنجاب نے ڈرائنگ سٹاف کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے لیکن خود ان کی داد رسی کرنے کی بجائے ڈائریکشن دیتے ہوئے معاملہ دوبارہ اس حکومت پنجاب کے سپرد کر دیا جو نہ صرف پہلے ڈرائنگ سٹاف کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کی مرتکب ہوئی بلکہ اس نے جسٹس شاہ کی طرف سے واضح فیصلہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے مزید امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری رکھا۔
ماتحت عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق جج دوست کی مطابق، جسٹس منصور علی شاہ کے جوڈیشل فہم کی گہرائی یہ ہے کہ بحیثیت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ انہوں نے جن ایڈیشنل ججوں کی تعیناتی کی سفارش کی ان میں سے کئی ججوں کو بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ میں مستقل جج کی حیثیت میں کام کرنے کے قابل نہ سمجھا گیا۔ ماتحت عدلیہ کے سابق جج نے یہ بھی کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے بحیثیت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، ماتحت عدلیہ کے کئی ججوں کے خلاف کرپشن کے ٹھوس ثبوت پیش کرنے کی بجائے محض ذاتی خیال کی بنا پر انہیں ترقی دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی عدلیہ میں کارکردگی کی حوالے سے دستیاب مواد میں سے نمونے کے طور پر یہاں جو کچھ پیش کیا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے فیصلے کس حد تک بولتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button