کشتیاں تو سبھی ڈوب چکی ہیں کب سے

تحریر : سیدہ عنبرین
پاکستانیوں سے بھری ایک اور کشتی ڈوب گئی، اس میں 63افراد سوار تھے 37کو بچا لینے کی اطلاع ہے، 16لاشیں مل چکی ہیں جبکہ 10افراد ابھی تک لاپتہ ہیں، کھلے سمندر میں ڈوبنے والی کشتی کے سوار کب تک ہاتھ پائوں چلا کر بچ سکتے ہیں، اس کا جواب ہے کئی دن، کئی گھنٹے نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک، دو گھنٹے، وہ بھی اس صورت کہ جسمانی صحت بہت اچھی اور پیراکی کا صرف شوق نہیں بلکہ وسیع تجربہ ہو، دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی تیرنے والی چیز ہاتھ آ جائے تو انسان اس پر پناہ لے کر کچھ وقت گزار سکتا ہے، پھر قریب سے گزرنے والی کوئی کشتی، کوئی چھوٹا جہاز ڈوبنے والے کو مدد مہیا کر سکتا ہے۔ یہ کہنا سوچنا یا لکھنا آگ سے گزرنا ہے کہ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جو زندہ نہ ملے جان لینا چاہئے وہ اب اس دنیا میں نہیں، پھر بھی انسان اور کشتی حادثے میں ڈوبنے والوں کے اہلخانہ اس امید پر اپنی باقی زندگی گزارتے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ رونما ہو چکا ہو اور ان کے لخت جگر کو بچا لیا گیا ہو، وہ جلد یا بدیر ان سے آ ملے گا۔ لاپتہ ہونے والے افراد اپنے پیچھے جو المیہ چھوڑ جاتے ہیں وہ یہی ہے کوئی زمین پر لاپتہ ہو جائے یا سمندر میں، دکھ ایک جیسا ہے، کچھ تو ایسے ہیں جو فضا میں لاپتہ ہو جاتے ہیں، ان کے اہلخانہ بھی ان کی راہ تکتے ہیں۔ یاد پڑتا ہے ایک سے زائد مسافر جہازوں نے پرواز کی، وہ اپنی منزل پر نہ پہنچے، راستے میں ہی لاپتہ ہو گئے، بعض کو لاپتہ ہوئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، ان کے پیارے آج بھی اس امید پر زندہ ہیں کہ کہیں سے ان کی کوئی اچھی خبر مل جائے گی۔
لاپتہ ہونے والے جہاز کے حوالے سے ایک فلم بنائی گئی، جو بہت مقبول ہوئی، جہاز کریش ہونے کے بعد اس کے بچ جانے والے مسافر کس طرح جدوجہد کرتے ہیں اور زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس فلم کے ریلیز ہونے کے بعد لاپتہ ہونے والے جہازوں کے مسافروں کے اہلخانہ کی امید کی ڈوری آج تک نہیں ٹوٹی۔ حقیقی زندگی میں کچھ مسافر طویل سفر طے کرنے کے بعد قریبی آبادی تک پہنچنے میں کامیاب رہے، بلاشبہ یہ عزم و ہمت کی ایک داستان تھی، لیکن ایسے واقعات روز روز نہیں ہوتے۔
سمندر میں ڈوبنے والوں کے کئی المیے ہیں، موسم کیسا تھا، پانی کتنا ٹھنڈا تھا، سمندر کے اس حصے میں شارک مچھلیاں تھیں یا نہیں تھیں، اس کی علاوہ اور بہت کچھ، چند روز قبل واشنگٹن میں کریش ہونے والا جہاز اور ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرانے کے بعد یخ بستہ دریا میں گرے، کسی ایک شخص کو نہ بچایا جا سکا، حالانکہ حادثے کو سیکڑوں آنکھوں نے دیکھا، ریسکیو آپریشن بروقت شروع ہوا، مگر پھر بھی سب لاپتہ ہو گئے، سب کی لاشیں ہی نکالی گئیں، سب کی موت کی وجہ یخ بستہ پانی تھا، جس نے دل اور لہو منجمد کر دیا۔
جاری برس یہ دوسری کشتی ڈوبی ہے، جس میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے، گزشتہ برس، پھر اس سے پہلے اور اس سے پہلے کئی برسوں میں کئی کشتیاں ڈوبی ہیں، ہر حادثے کے بعد ایک سی خبریں، ایک سے احکامات دیکھنے میں اور سننے میں آئے۔ پہلی خبر ملک کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی طرف سے اظہار افسوس، جس میں یہ خصوصی طور پر بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈوبنے والوں کے اہلخانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ دوسری خبر انسانی سمگلروں کے خلاف آپریشن کا حکم، کسی ذمہ دار کو معاف نہیں کیا جائے گا، پھر مکمل خاموشی، پے در پے حادثات کے سبب ایک تبدیلی آئی ہے کھوج لگانے کیلئے کہیں حرکت ہوئی ہے اور آپریشن کی بجائے کریک ڈائون کے لفظ استعمال ہونے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں واضع ہوا کہ ایف آئی اے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد ان جرائم پیشہ افراد کے گروہ میں شامل تھے، ان کی مدد سے یہ لوگ آزادانہ پھرتے تھے، وارداتیں کرتے تھے، لوگوں کو پھانستے تھے، کشتیاں ڈبوتے تھے، کوئی انہیں پوچھنے والا نہ تھا۔ ایف آئی اے سے تعلق رکھنے والے قریباً 2درجن افراد کے خلاف کارروائی کی اطلاع ہے، ابھی یہ معلوم نہیں سزا صرف معطل کرنا ہے یا نوکریوں سے نکال کر مقدمات چلا کر سزائیں بھی دی جائیں گی۔ معاملہ انسانی جانوں کا ہے معطلی کوئی سزا نہیں، معطلی کے بعد بحال ہونے والوں کو پھر وہی کچھ کرتے دیکھا جاتا ہے، جس پر وہ کئی کئی بار معطل ہوتے ہیں، نوکری کے آخر میں پوری سہولتوں کے ساتھ ریٹائر کر دیئے جاتے ہیں، جرائم کے کئی حصہ دار ہوتے ہیں، مجرم کے پیچھے کئی مجرم اور ان کے پیچھے مجرمانہ نظام پوری آن بان شان سے کھڑا ہے۔ 70برس سے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، کہا جا سکتا ہے نظام نہیں ڈوبا باقی سب کچھ ڈوب چکا ہے۔ انسانی سمگلروں کو کئی کئی لاکھ روپے دے کر لوگ خودکشی مشن پر اس بڑی تعداد میں کیوں جا رہے ہیں لمحہ فکریہ ہے۔ گزشتہ 2برس میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 17لاکھ ہے، ان میں کچھ آج بھی مختلف ملکوں میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن سب انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں، جن کی کشتیاں ڈوب گئیں، جنہیں گہرے سمندر میں پہنچ کر قتل کر دیا گیا، ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
ملک چھوڑ جانے والے سب کے سب ان پڑھ، جاہل، مطلق نہیں تھے، ان میں بڑی تعداد ہنر مندوں کی ہے، جن کیلئے ملک میں روزگار نہ تھا، اگر نوکر یاں کسی حد تک موجود بھی تھیں تو میرٹ نہ تھا، رہی سہی کسر کرپشن اور رشوت نے پوری کر دی، رشوت کا پہلا اصول، یہ ایڈوانس لی جاتی ہے۔ کام نہ ہونے پر واپس نہیں کی جاتی، لہٰذا اب نوجوان یہ سوچنے پر مجبور ہیں اگر روپے پیسے کے بغیر کام نہیں چلتا تو پھر زندگی کو اور زندگی کا آخری دائو لگا دو، آر یا پار۔
حیرت اس بات پر ہے بھارت، بنگلہ دیش، ویت نام، سوڈان، صومالیہ اور وینز ویلا کے لوگوں سے بھری ہوئی کشتیاں ڈوبنے کی خبر کبھی نہیں ملی، غربت تو ان ملکوں میں بھی بہت ہے، بعض میں تو سول وار جاری ہے، مگر شاید ان خراب تر حالات کے باوجود انہیں دو وقت کی روٹی میسر ہے، جس کے اب پاکستان میں لالے پڑ چکے ہیں، مگر مستقل مزاجی ملاحظہ فرمایئے قوم کو باور کرایا جا رہا ہے مہنگائی نو برس کی کم ترین سطح پر ہے۔ بھوکوں، ننگوں اور مفلوک الحال لوگوں کو کہیں دور لے جانے والی کشتیاں ہی نہیں ڈوبیں اور بہت کچھ ڈوب چکا ہے۔ آئی ایم ایف جسے مالیاتی ادارے کی ٹیم مالیاتی معاملات سے ہٹ کر اب چیف جسٹس آف پاکستان سے کیوں ملی ہے۔ وزیراعظم اور حساس ادارے کے چیف سے کیوں ملی ہے۔ یورپی یونین کا وفد ان اہم شخصیات سے کیوں ملا ہے جواب سادہ اور عالمی اعداد و شمار میں ہے۔ کیا ہر طرف کشتیاں ڈوب چکی ہیں؟۔
ناصر شیرازی کا ایک شعر قارئین کیلئے
کشتیاں تو سبھی ڈوب چکی ہیں کب سے
پار لگانے کیلئے ہاتھ میں پتوار نہ تھے