فافن کی رپورٹ اور دنیا میں انقلاب

تحریر: روہیل اکبر
ایک طرف دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے بھی آگے کا سفر شروع کر چکی ہے اور ہم ابھی تک فارم 47میں الجھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انٹرنیٹ چلتا نہیں اور کام ٹھپ پڑے ہیں ہماری ٹیکسٹائل اور دوسری انڈسٹری تو پہلے ہی جواب دے چکی ہے رہی سہی کام کرنی والی فیکٹریاں بھی بند ہوتی جارہی ہیں دنیا میں کیا نئی نئی دریافت ہورہی ہیں اس پر بات کرنے سے پہلے میں فافن کی جرات و بہادری پر سلام پیش کرتا ہوں کہ اتنے سخت ماحول میں انہوں نے دھاندلی زدہ الیکشن پر اپنی مفصل رپورٹ جاری کی سوچنے کی بات ہے کہ جب ہماری عدالتیں آزاد اور خود مختار ہیں تو پھر فارم 47 کے تحت نشستیں بیچنے والوں کے خلاف قانون کیوں خاموش ہے؟ نااہل اور عوام کی جانب سے مسترد شدہ لوگوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے والے آج تک قانون کی گرفت سے باہر کیوں ہیں؟ ان کا نام کیوں کوئی نہیں لے سکتا جب تک ملک میں تمام شعبوں اور اداروں کے متعلق قانون اور انصاف کی فراہمی یکساں نہ ہو تو ملک کی معاشی سیاسی استحکام اور ترقی ناممکن ہے اسی حوالہ سے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( فافن) نے 8 فروری 2024کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد قائم الیکشن ٹربیونلز کی کارکردگی پر بھی اپنی چھٹی رپورٹ جاری کردی جس میں بتایا گیا کہ الیکشن ٹربیونلز نے 30فیصد درخواستوں پر فیصلے سنا دئیے جبکہ 70فیصد تاحال زیرالتوا ہیں الیکشن ٹریبونلز نے جنوری 2025میں 11مزید انتخابی درخواستوں کا فیصلہ سنایا کل فیصلوں کی تعداد 112ہوگئی جو مجموعی درخواستوں کا 30فیصد بنتی ہے لاہورکے 3ٹربیونلز نے 9، بہاولپور اور کراچی کے ٹربیونلز نے ایک، ایک درخواست کا فیصلہ کیا فیصلہ شدہ 11درخواستوں میں 6پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تھیں 4درخواستیں مسلم لیگ ن اور ایک درخواست استحکامِ پاکستان پارٹی کے امیدوار کی تھی تمام 11درخواستیں مسترد کر دی گئیں 2024 کی آخری سہ ماہی میں الیکشن تنازعات کے حل کا عمل تیز ہوا ہے بلوچستان ہائیکورٹ کی تعطیلات کے باعث جنوری میں درخواستوں کے فیصلوں میں سست روی آئی پنجاب میں قانونی چیلنجز کے بعد انتخابی درخواستوں کے فیصلے کی رفتارمیں بہتری آئی بلوچستان کے ٹربیونلز نے 51میں سے 41درخواستوں پر فیصلہ سنایا پنجاب کے ٹربیونلز نے 192میں سے 45درخواستوں پرفیصلہ دیا سندھ کے ٹربیونلزنے 83میں سے 17اور خیبر پختونخوا کے ٹربیونلز نے 42میں سے 9درخواستوں کے فیصلے کئے قومی اسمبلی کی نشستوں سے متعلق 123میں سے 25درخواستوں پر فیصلہ ہوچکا ہے صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 248میں سے 87درخواستوں کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے سپریم کورٹ میں 38ٹربیونل فیصلوں کو چیلنج کیا گیا بلوچستان سے 24، پنجاب سے 10اور سندھ سے 4اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں جبکہ سپریم کورٹ نے اب تک 3اپیلوں پر فیصلہ سنایا ایک منظور اور 2مسترد کر دی گئیں 112میں سے 108درخواستیں مسترد 3منظور اور ایک درخواست درخواست گزار کی وفات کے باعث ختم کردی گئی جبکہ بلوچستان اسمبلی کی 3 نشستوں پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا یہ تو ہے ہمارا نظام۔ اب آتے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم کیا کر رہے ہیں پچھلے چند دنوں میں ڈیپ سیک انٹرنیشنل اکانومی کا ہلا کر رکھ دیا ہے اور OpenAIکے کھربوں ڈالرز کے خواب کو چکنا چور ہو گئے ہیں ChatGPTجیسے طاقتور AIماڈل کو صرف 1/100لاگت میں تیار کر لیا ہے میری نظر میں یہ دنیا میں کسی بھی پروڈکٹ کا سب سے بڑا ہارڈ لانچ ہے جس کی سلامی 1500ارب ڈالرز سے زائد ہے یہ پیشرفت ڈاٹ کام کریش جیسے تاریخی مارکیٹ حادثے کو جنم دے سکتی ہے ڈیپ سیک کا r1ماڈل: GPTکو پیچھے چھوڑنے والا چینی چیلنج ہے یہ نہ صرف GPTسے تیز اور ہوشیار ہے بلکہ کثیرالمقاصد بھی پانچ سال تک AIدنیا کا ایک ہی نعرہ تھا کہ’’ طاقتور AIکے لیے دیوہیکل وسائل چاہئیں!‘‘ کروڑوں ڈالر، ہزاروں ماہرین، فٹ بال گرائونڈ جتنے ڈیٹا سینٹرز مگر اب یہ نظریہ دھڑام سے گر چکا ہے اوپن اے آئی نے اربوں خرچ کرکے سپر کمپیوٹرز اور ذہین ترین دماغ جمع کیے تھی مگر اب ایک چینی ماڈل نے اسی ماڈل کو ’’ چائے کے ریٹ‘‘ میں پیش کر دیا ہے یہ محض لاگت میں کمی نہیں بلکہ AIکی معاشیات کو الٹ دینے والا دھماکہ ہے تبھی لندن، نیویارک، ہانگ کانگ کے سٹاک ایکسچینجوں میں زلزلہ آیا ہوا ہے لگتا ہے کہ 2000کی ڈاٹ کام کریش والی کہانی اپنی آپ کو دہرا رہی ہے اس وقت انٹرنیٹ کی دوڑ میں کمپنیوں نے انفراسٹرکچر پر اربوں لْٹا دیے نتیجہ؟ Webvanجیسی کمپنیاں دیوالیہ اور کھربوں ڈالر کا نقصان کر چکی ہیں وجہ سادہ تھی کہ رسد نے طلب کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا آج AIکی دوڑ اسی راستے پر مگر دس گنا تیزی سے! پنڈتوں کے مطابق AIانڈسٹری کو 600ارب ڈالر کا ریونیو چاہیے حقیقت میں کتنا چاہیے؟ صرف 60ارب ڈالر یہ خلیج نہیں بلکہ خلا ہے اور اب یہ سستا AIماڈل پورے کاروباری ماڈل کو زمین بوس کر سکتا ہے بڑے ڈیٹا سینٹرز؟ اب بے کار مہنگے ہارڈویئر؟ فضول خرچی اے آئی اسٹاک کی بلند ویلیوایشنز؟ ہوا میں قلعے ڈیپ سیک کی آمد سے پہلے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی پوری معیشت ’’ مصنوعی قلت‘‘ پر کھڑی تھی ’’ صرف امیر ترین ہی AIبنا سکتے ہیں ‘‘ مگر اب یہ قلت ختم اور بلبلہ پھٹنے کو تیار ہے آپ ذرا ٹائم مشین میں جھانکیں تو2000کے بعد جب انٹرنیٹ بلبلہ پھٹا تب Amazonجیسی کمپنیوں نے حقیقی مسائل حل کیے اب AIکی دنیا میں بھی یہی ہوگا بجائے بڑے ڈیمو کے عملی استعمال اور بجائے بڑے ڈیٹا کے معیاری ڈیٹا، بجائے کلاڈ کے مقامی ڈیوائسز پر AIویب 4کا جنم یہ نئی جنریشن ہوگی سستے مگر موثر AIماڈلز مرکزی نظاموں کی بجائے پھیلے ہوئے نیٹ ورکس ڈیٹا کی کوالٹی سے پیدا ہونے والی حقیقی قدر پچھلے 10دن میں سرمایہ کاروں کی آنکھیں کھلی ہیں مارکیٹ 1500ارب ڈالر کا غوطہ کھا چکی ہے سو لگتا ہے کہ یہ بلبلہ ضرور پھٹے گا مگر جیسے 2000کے بعد حقیقی انٹرنیٹ انقلاب آیا اے آئی بھی اپنی اصل شکل میں ابھرے گا قابل عمل، سستا اور سب کی پہنچ میں ٹیکنالوجی کا چکر ہمیشہ یہی رہتا ہے ہائپ کریش پھر حقیقی انقلاب کامیاب وہی ہوگا جو خیالی اعدادوشمار پر نہیں روزمرہ کی حقیقی ضرورتوں پر توجہ دے اور اصلی مسائل کا حل پیش کرے اے آئی کی یہ لہر آپ کو یا تو موجوں پر سوار کرے گی یا پھر چٹان سے ٹکرا دے گی اسی طرح ہماری سیاست بھی ہے جو ایک دم اوپر جاتی ہے اور پھر دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے جمہوریت پٹری پر آتی ہے لیکن پھر فافن بتاکر پردہ فاش کر دیتی ہے اوپر نیچے ہوتی ہماری جمہوریت اور انٹرنیٹ کی سست سپیڈ کب تک یونہی چلے گی اس بارے میں کچھ علم نہیں اگر کسی کو ہو تو ہمیں بھی بتا دئیے۔