نقلی شیر زندہ باد

تحریر : سیدہ عنبرین
گڈریا کئی دنوں سے پریشان پریشان نظر آ رہا تھا، اس کی بیوی سے آخر نہ رہا گیا تو پوچھ بیٹھی کہ رونی صورت کیوں بنائے پھرتے ہو، ڈھنگ سے کھانا نہیں کھاتے، کئی روز سے لباس تبدیل نہیں کیا، نہ ہی بچوں سے ہنسی مذاق کرتے ہو اور میری طرف تو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے؟۔ گڈریے نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا گزشتہ ہفتے عشرے سے ایک درندے نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہ جنگل کا بادشاہ ہے، شیر ہے، جب اس کا جی چاہے ادھر آ نکلتا ہے اور ایک بھیڑ کو اٹھا لے جاتا ہے، بیوی نے غور سے اس کی بات سنی، کچھ دیر سوچتی رہی، پھر بھولی میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے، اسے آزما کر دیکھو، شاید مسئلہ حل ہو جائے ۔گڈریے نے قدرے سکون کا سانس لیتے ہوئے پرامید نظروں سے بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا وہ کیا ہے؟، بیوی نے کہا بازار جائو اور شیر کی کھال خرید لائو، پھر کسی بھی پلی ہوئی بھیڑ کو پہنا کر اسے دیگر بھیڑوں کے ساتھ باڑے میں چھوڑ دو، یہ سن کر گڈریے کی آنکھوں میں ایک چمک آ گئی، اسے ترکیب پسند آ گئی، اسے یقین ہو گیا کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اگلے روز منصوبے کے مطابق ایک بھیڑ کو شیر کی کھال پہنا کر دیگر بھیڑوں میں شامل کر دیا گیا، بھیڑیں اسے دیکھ کر ڈر گئیں اور ایک طرف بھاگ اٹھیں، تھوڑی دیر میں انہوں نے دیکھا کہ شیر کی کھال میں موجود بھیڑ بھی انہی کی طرح گھاس چرنے میں مصروف ہو گئی ہے تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا اور اس کے قریب آ گئیں، انہوں نے سوچا جو ان کی طرح گھاس چر رہی ہے وہ ان کیلئے خطرے کا باعث نہیں، تمام بھیڑیں اور شیر کی کھال میں موجود اکٹھے گھاس چرتی رہیں، پہلا دن خیریت سے گزر گیا، دوسرے دن بھیڑیں چرنے کیلئے نکلیں تو بھوک سے بے تاب شیر بھی ادھر آ نکلا، اس نے بھیڑوں کے درمیان ایک شیر کو گھومتے پھرتے دیکھا تو بہت حیران ہوا اور سوچنے لگا کہ یہ اس کی برادری میں سے کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے علاقے میں گھس آیا ہے، وہ اس پر مزید حیران ہوا کہ بھیڑیں بھی اس سے بے حد مانوس ہیں جبکہ اس کی شکل دیکھتے ہی وہ سب جس کا جدھر منہ اٹھتا وہ ادھر بھاگ نکلتی تھی۔ شیر ابھی اس صورتحال پر غور کر ہی رہا تھا کہ شیر کی کھال پہنے بھیڑ نے گھاس چرنا شروع کر دی، شیر اصلی شیر تھا اور جنگل کا بلاشرکت غیرے بادشاہ بھی، وہ قالین کا شیر ہوتا تو زمین پر بے سدھ پڑا رہتا، جنگل کے بادشاہ کو چند لمحوں میں حقیقت معلوم ہو گئی، ٹھیک اسی لمحے شیر کی کھال پہنے بھیڑ نے میں میں کرتے ہوئے اپنی ساتھی بھیڑوں سے کہا کہ اصلی شیر آ گیا ہے، ہوشیار ہو جائو۔ ٹھیک اسی لمحے اصلی شیر نے حملہ کر دیا، تمام بھیڑیں اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں، وہ کہتی جا رہی تھیں اصلی شیر پر جوابی حملہ کرو، اسے روکو جبکہ نقلی شیر یعنی شیر کی کھال میں موجود بھیڑ کہہ رہی تھی میں شیر نہیں، بھیڑ ہوں، میں شیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جمہوری جنگل میں شیر کی کھال پہنے ہوئے بھیڑ کی اصلیت کھل چکی ہے، اصلی شیر جب بھی دھاڑتا ہے بھیڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے، وہ اندھا دھند اپنی جان کیلئے بھاگ اٹھتی ہیں، بھیڑوں نے جنگل کے دیگر باشندوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے، لیکن پورا جنگل اس کے مقابل آنے سے ڈرتا ہے، شیر کہتا ہے میں کسی کو نہیں پھاڑ کھائوں گا، کوئی اس پر یقین نہیں کرتا، وہ کہتا ہے میں سبزہ زار مینار پاکستان پر چہل قدمی کروں گا اور لوٹ جائوں گا، مگر سب ڈرے بیٹھے ہیں کہ اگر اس نے اٹھنے سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا۔ شیر جب کسی طرف نکلنے کا عندیہ دیتا ہے جنگل میں کھلبلی مچ جاتی ہے، راستے بند کرنے کے انتظامات میں زمین آسمان ایک کر کے اگلے روز کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی نہیں نکلا، اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی نہیں نکلتا تو پھر ڈرنا کیسا؟، یہی راگ صوابی جلسے کے موقع پر سننے میں آیا۔ ایک قومی اخبار نے سرکار کا حلیف ہونے کے باوجود نہایت چابکدستی سے ڈھول کا پول کھول دیا۔ صفحہ اول پر سہ کالمی سرخی میں وزراء کے بیان کے مطابق سرخی جمائی کہ ’’ کال مسترد کر دی گئی‘‘، اس کی نیچے ہی اس کے جلسے کی تین کالمی تصویر شائع کر دی، جس میں نابینا افراد بھی لاکھوں افراد کا مجمع دیکھ سکتے ہیں۔
بھیڑیں ایک عجب مشکل میں گرفتار ہیں، شدید گرمی کا موسم ہو تو انہیں شیر کی کھال اتارنا پڑتی ہے، یہ کھال اپنی ہو تو تکلیف نہیں دیتی، اسی طرح بارش ہو جائے تو بھیگ جاتی ہے اور مزید وزنی ہو جاتی ہے، اتنا وزن اٹھا کر بھیڑ چل ہی نہیں سکتی، اس سے اپنا وزن نہیں اٹھایا جاتا، اسی لئے تو گڈریا وقفے وقفے سے اس کے جسم پر قینچی چلا کر اس کی اون اتار دیتا ہے، بھیڑ کچھ عرصہ سکون میں رہتی ہے، پھر اس پر بسیار خوری کے باعث اون چڑھ جاتی ہے، گڈریا پھر قینچی کا استعمال کرتا ہے، دوسری طرف اصلی شیر پر موسم اتنا اثر انداز نہیں ہوتا، شدید گرمی ہو تو شیر کو پسینہ آتا ہے، وہ گھنے درختوں کی چھائوں میں لیٹ جاتا ہے، پسینہ خشک ہو جاتا ہے، چڑیا اور کوے آ کر اس کے دانتوں میں خلال کرتی ہیں، بندر اس کی دم پکڑ کر کھینچتے ہیں، شرارتیں کرتے ہیں، شیر انجوائے کرتا رہتا ہے، بارش میں بھیگ جائے تو ایک عجب شان بے نیازی سے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے، جسم کو ایک جھٹکا دیتا ہے اور پانی اس کی کھال کو غسل دیتا ہوا زمین میں جذب ہو جاتا ہے، وہ قریبی چشمے یا دریا سے شفاف پانی پیتا ہے اور اپنی ریاست کے رائونڈ پر نکل جاتا ہے۔بھیڑوں کی پریشانی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جنگل میں گھاس تیزی سے کم ہو رہی ہے، پانی بھی وافر نہیں، بارشیں نہ ہونے سے پانی کی کمی سے پورا جنگل متاثر ہو گا، فصلوں پر مضر اثرات سامنی آ رہے ہیں، گھر میں پڑے سودے بیچنے کی نوبت تو عرصہ دراز قبل آ گئی تھی، اب تو یہ سوچ بچار جاری ہے کہ جب سب کچھ بیچ بیٹھیں گے تو پھر کیا بیچیں گے؟۔
دال روٹی کا انحصار دوستوں اور ان کی مہربانیوں پر ہے، سب کے آگے دست سوال دراز کیا ہے کہ مدد فرمائیں اور اگر کاسہ گدائی میں کچھ نہیں ڈال سکتے تو کم از کم پرانے قرض تو ضرور ری شیڈول کر دیں، اس حوالے سے چین سے اب امیدیں وابستہ ہیں کہ پرانے قرض ری شیڈول کر دے۔ 14ارب ڈالر کے قرض میں 4ارب ڈالر کیش، 6ارب ڈالر کریڈٹ سہولت اور ساڑھے 4یا 3ارب کے قریب ٹریڈ سہولت بتائی جاتی ہے۔ بھیڑوں کا عالم بے بسی ملاحظہ فرمایئے اپنی قوت و طاقت سے چیمپئنز ٹرافی منعقد نہیں کر سکتے، ذرائع خبر دیتے ہیں کہ سکیورٹی کیلئے فوج اور رینجرز سے مدد کی درخواست کی گئی ہے، نقلی شیر کیلئے زندہ باد کا ایک نعرہ ضرور لگائیں۔