Column

سر سبز پاکستان کے لئے قابلِ عمل تجویز

تحریر : رفیع صحرائی
سیلاب اور زلزلے قدرتی آفات ہیں۔ ہر سال ہمیں سیلاب کا عذاب بھگتنا پڑتا ہے۔ لاکھوں لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو کر اپنی جائیداد، گھر، مویشیوں اور کھڑی فصلوں کا نقصان برداشت کرتے ہیں۔ سیلاب اترنے کے بعد متاثرین کی امداد اور بحالی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ہر دردِ دل رکھنے والا شہری بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔
ہماری حکومت بھی ہر سیلاب کے بعد کشکول اٹھائے دنیا بھر سے چندہ اکٹھا کرنے میں لگ جاتی ہے۔ کہیں سے کچھ مل جاتا ہے اور اکثر جگہوں سے محض وعدوں پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ اب تو دنیا بھی ہماری امداد کر کر کے تھک چکی ہے لیکن ہمارا کشکول ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
سیلاب بے شک ایک قدرتی آفت ہے لیکن اس آفت کو مناسب منصوبہ بندی سے ٹالا بھی جا سکتا ہے۔ اس کے آگے بند بھی باندھا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری ہر حکومت نے سیلاب کو کمائو پوت سمجھ کر اپنی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ ہی سمجھا ہے۔ کسی نے سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت ہی محسوس نہیں کی کہ سیلاب سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے اکٹھا ہونے والا فنڈ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہوتا ہی۔ انسانی جانوں کے ضیاع کا نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔
جاپان کا محلِ وقوع اس قسم کا ہے کہ اسے سارا سال زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جاپانیوں نے یہ نہیں سوچا کہ چونکہ زلزلوں سے بچنا ممکن نہیں لہٰذا ہم پختہ عمارتیں بنانے کی بجائے جھونپڑیوں میں رہا کریں گی۔ جاپان والوں نے اس کا حل نکالا۔ اس کے انجنیئر سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے ایسے گھروں اور بڑی عمارتوں کے نقشے ڈیزائن کیے جوزلزلہ پروف تھے۔ آپ دیکھ لیں، جاپان میں کئی کئی منزلہ عمارتیں موجود ہیں۔ وہاں روزانہ زلزلے آتے ہیں مگر ان عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جاپانیوں نے ان زلزلوں کے ساتھ رہنا اور ان کے نقصانات سے بچائو کا توڑ نکالنا سیکھ لیا۔ ہم نے ہر سال سیلاب کا انتظار کرنے اور پھر اس کا شکار ہونے کے آگے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سیاستدان ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کا سوچیں۔ اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو یہی سیلابی پانی جو ملک و قوم کے لیے ہر سال دو سال بعد زحمت بن جاتا ہے کامیاب حکمتِ عملی سے رحمت میں بدل جائے گا۔
سیلاب آنے کا سبب درجہ حرارت میں اضافہ ہونا ہے۔ کیمیکلز اور گیسوں کے بے تحاشہ استعمال اور جنگوں میں اسلحہ بارود کے آزادانہ استعمال نے زمین کے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ ہمارے ہاں درختوں کی اندھا دھند کٹائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ ہمارے ہاں چاول کی گزشتہ فصل بلند درجہ حرارت کی نذر ہو چکی ہے۔ کپاس کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ابھی تک حکومتی سطح پر درجہ حرارت نیچے لانے کی وہ کوشش نہیں کی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ درجہ حرارت کو نیچے لانے کا واحد ذریعہ درخت ہیں۔ جتنے زیادہ درخت لگائے جائیں گے اسی حساب سے درجہ حرارت نیچے آئے گا۔
گزشتہ سال اگست میں وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف کو محکمہ جنگلات کی طرف سے رپورٹ پیش کی گئی تھی کہ ماہ جون 2024ء میں 2ارب 10کروڑ نئے پودے لگائے گئے تھے۔ گزشتہ اگست میں وزیرِاعظم نے دس کروڑ پودے لگانے کا ٹارگٹ دیا تھا۔ جناب وزیرِ اعظم کو اس پراجیکٹ کے ذمہ داران کو بلوا کر پوچھنا چاہیے کہ ان دو ارب بیس کروڑ پودوں کا کیا بنا؟ کتنے پودے ان میں سے محفوظ ہیں؟ دو ارب بیس کروڑ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ ہمیں تو بیس کروڑ پودے بھی کہیں لگے نظر نہیں آئے۔ ایسا لگتا ہے کہ بلین ٹری سونامی کی طرح دو ارب بیس کروڑ پودوں کا سونامی بھی کہیں خلا میں ہی وقوع پذیر ہوا ہو گا۔
ہمارے ہاں ہر سال فروری اور اگست میں شجرکاری کی جاتی ہے۔ یہ مہینے شجرکاری کے لیے موزوں ترین ہیں۔ فروری کا دوسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔ ابھی تک شجرکاری کی کمپین ہی شروع نہیں ہو سکی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جائے۔ صرف محکمہ جنگلات پر اسے نہ چھوڑا جائے۔ شجرکاری کو قومی مہم کے طور پر شروع کیا جائے۔ منتخب عوامی نمائندوں اور محکمہ تعلیم کو اس قومی مہم میں شامل کر کے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
محترم وزیر اعظم کی خدمت میں یہ تجویز پیش ہے کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی ہنگامی میٹنگ کال کریں اور انہیں اس مہم کے بارے میں بریفنگ دیں۔ وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے صوبے کے وزراء اور ایم پی ایز کا ہنگامی اجلاس طلب کریں اور تمام ایم پی ایز کو ہدایت جاری کریں کہ وہ اپنے حلقے کے تمام بوائز سکولوں و کالجوں کے ہیڈماسٹرز اور پرنسپل صاحبان کے ساتھ میٹنگ کریں اور انہیں مہم کے بارے میں آگاہ کر کے ان میں قومی جذبہ ابھارتے ہوئے ان کے ذمہ یہ کام لگائیں کہ اپنے ایریا میں اساتذہ، طلبہ اور کمیونٹی کی مدد سے وہ سڑکیں، میدان، زمینیں اور گرائونڈز مارک کریں جہاں پودے لگانے مقصود اور ضروری ہیں۔ ایک دن مقرر کیا جائے جس روز مقررہ جگہوں پر پودے لگانے کے لیے طلبہ کھڈے ماریں گے۔ محکمہ جنگلات کو پابند کیا جائے کہ اسی شام کو متعلقہ سکولوں و کالجوں میں مقررہ تعداد میں پودے پہنچائے جائیں۔ اگلے روز صبح نو بجے تک تمام طلبہ اور اساتذہ پودوں و پانی کی بالٹیوں سمیت ایک روز پہلے مارے گئے کھڈوں کے پاس پہنچ جائیں۔ ٹھیک نو بجے یہ پودے کھڈوں میں لگا دیئے جائیں۔ اسی ٹائم پر تمام سرکاری دفاتر، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم ہائوسز میں بھی یہ عمل بروئے کار لایا جائے۔ یوں ایک منٹ میں کروڑوں پودے لگانے کا ورلڈ ریکارڈ قائم ہو جائے گا۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس مثبت سرگرمی کا اندراج ہو جائے گا اور سرسبز پاکستان کی جانب بڑھنے کا عملی طور پر آغاز بھی ہو جائے گا۔ اس عمل سے نہ صرف کروڑوں پودے اپنے حقیقی وجود کے ساتھ دھرتی پر لگے ہوئے نظر آئیں گے بلکہ قومی یک جہتی کے جذبے کو بھی فروغ ملے گا۔ اگر یہ قومی مہم فوری طور پر شروع کر دی جائے تو اس کے بڑے دور رس نتائج نکلیں گے۔ ہر چھ ماہ بعد شجرکاری کے موسم میں اس مہم کا اعادہ کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button