شب کے آنگن میں سو گئے سائے

تحریر : شکیل امجد صادق
ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا، سیب خریدیں! سیب! حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جا رہا ہے۔ حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا: خزانے سے 5سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لائو۔ وزیر نے خزانے سے 5سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا: یہ 4سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔ معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا: سونے کے یہ 3سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔ محل کے منتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا یہ 2سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں۔ چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا یہ 1سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لائو۔ سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے. اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں۔ سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا میں نے غلطی کی ہے جناب اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو۔ سپاہی نے سارے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم کو دے دیئے۔ اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے منتظم کو دے دیئے اور کہا کہ یہ 1سونے کے سکے والے سیب ہیں۔ افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کے منتظم کو دیا، اس نے کہا کہ ان سیبوں کی قیمت 2سونے کے سکے ہیں۔ محل کے منتظم نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور آدھے وزیر کو دئیے اور کہا کہ ان سیبوں کی قیمت 3سونے کے سکے ہیں۔
وزیر نی آدھے سیب اٹھائے اور وزیر اعلیٰ کے پاس گیا اور کہا کہ ان سیبوں کی قیمت 4سونے کے سکے ہیں۔ وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہا کہ یہ 5سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں۔ حاکم نے سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کئے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔۔۔ میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے۔ اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک بھکاری کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ بھکاری بچارا ایک ٹانگ سے معذور ہوگیا۔ گھوم پھر کر مانگنے میں تکلیف ہونے لگی۔ سوچا کہ کچھ پیسے بچا کر ٹانگ کا آپریشن کروا لوں گا۔ اس بھکاری نے ایک سینئر بھکاری سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ تو تو خوش قسمت ہے کہ لنگڑا ہوگیا۔ کل سے لنگڑی ٹانگ لے کر سگنل پر بیٹھا رہ اور کمال دیکھ۔۔۔۔۔ لنگڑے بھکاری نے ایسا ہی کیا تو صحت مند ٹانگ والے سے دنوں میں کئی گنا زیادہ کما لیا۔ بھکاری سمجھ گیا کہ لنگڑا رہنا ہی اس کے مستقبل کے لیے بہترین ہے اور روشن مستقبل کی علامت ہے۔ اب آپ پاکستان کا حشر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
اس بربادی اور معاشی تباہی میں، پاکستان کے لیے معاشی طور پر جو خبر آئی وہ ’’ امداد‘‘ کانفرنس سے آئی۔ اس کانفرنس سے اچھی خبر صرف اس لیے آئی کہ کچھ عرصہ قبل ایک سیلاب نے پاکستان میں ’’ تباہی‘‘ پھیری تھی۔
کانفرنس کی کامیابی پاکستان کا وہی حال کرے گی جو لنگڑے کا کیا۔ جیسے وہ لنگڑا بھکاری اپنی معذوری کو ہی اپنی کامیابی سمجھ بیٹھا ہے، ویسے ہی پاکستان کے لیے معاشی کامیابی تباہیوں، جیسے کہ سیلاب، زلزلے، جنگوں اور دہشتگردی میں ہے، کیونکہ اب یہی وہ جھنجھنے ہیں جنہیں بجا کر امداد سمیٹی جا سکے۔ ایکسپورٹس، مینوفیکچرنگ، آئی ٹی، ٹورازم وغیرہ کو اب کنارے رکھ دیجئے۔ ریاست کو اب ان فضولیات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میری اندرون سندھ سیلاب کا شکار ہوئے کافی لوگوں سے گفتگو ہوئی جو کراچی آ بسے ہیں۔ سب کا شکوہ تھا کہ مہینوں ہوگئے، پانی آج بھی کھڑا ہے۔ حکومت کو نکاسی میں دلچسپی نہیں۔ اب سمجھ آیا حکومت کو نکاسی آب میں کیوں دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ لنگڑے کی ٹانگ ٹھیک ہوجائے تو بھیک کم ملتی ہے۔
ریاست نے اپنی ترجیہات واضح کردی ہیں۔ امدادی کانفرنس کی کامیابی نے ہماری ریاست کی سوچ پر وہی اثر ڈالا ہے جو لنگڑی ٹانگ نے بھکاری کی اپروچ پر ڈالا تھا۔ یہاں مختلف شکلوں میں تباہی و بربادی کو پروموٹ کیا جائے گا اور امداد وصولی جائے گی۔ ریاست کو لنگڑی ٹانگ کا چسکہ لگ گیا ہے۔ بہرحال، اس ساری صورتحال میں بہت سے لوگ خوش بھی ہیں۔ وہ اسے ریاست اور حکومت کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ چوتھی پانچویں بار حکومت بنانے والوں نے اتنی اتنی امداد اور قرضہ اکھٹا کرلیا ہے کہ ان کی سات نسلیں روٹی اور آٹے کہ جھنجھل سے آزاد ہیں۔ ہم نے جو سحر دیکھی تھی وہ 77سالوں کی سیاہ رات کے بعد آئی نہیں اور مستقبل قریب میں بھی آنے کی امید نہیں ہے۔
بقول تنویر شاہد محمد زئی:
شب کے آنگن میں سو گئے سائے
جن کو آنا تھا وہ نہیں آئے