Columnمحمد مبشر انوار

امریکی ریاستی مفادات

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
قارئین کرام! امریکہ میں نو منتخب صدر ٹرمپ اپنے عہدے کا باضابطہ حلف لے کر، اپنے فرائض سنبھال چکے ہیں اور اس دوران انہوں نے اپنی جن ترجیحات کا اعلان کیا تھا ان پر عملدرآمد کے لئے بروئے کار آتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہی کی بات کی تھی اور اس ضمن میں امریکہ سے غیر قانونی تارکین کو ملک بدر کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا تھا، تاہم اپنے گزشتہ دور حکومت میں بوجوہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تھے، بعینہ آج بھی وہ اپنے اسی موقف پر قائم ہیں اور امریکہ کو غیر قانونی تارکین سے پاک کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اسی طرح اپنے گزشتہ دور حکومت میں بھی ٹرمپ امریکی معیشت کے متعلق متفکر تھے اور اب بھی معیشت کے حوالے سے فکرمند دکھائی دیتے ہیں البتہ اس مرتبہ اپنے حلف کے فورا بعد ہی، امریکہ میں سرمایہ کاری کے لئے سعودی عرب کی جانب سے اگلے چار سالوں میں600بلین ڈالر کا اعلان، جبکہ یو اے ای کی جانب سے پہلے ہی بڑی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے، امریکی معیشت کو زبردست تقویت دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ ٹرمپ کے گزشتہ انتخابات جیتنے پر نومبر 2016ء کی ایک تحریر بعنوان ’’ سب سے پہلے امریکہ‘‘ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں تاکہ قارئین کی یاد تازہ ہو سکے اور وہ جان سکیں کہ صدر ٹرمپ کے خیالات اور شخصیت میں کیا فرق آیا ہے۔ ’’ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں گزشتہ ایک سال سے جاری انتخابی بخار اگلے چار سال کے لئے ماند پڑ چکا کہ اس انتخابی بخار کے نتیجے میں ریپبلکن پارٹی کا بیمار حصول اقتدار میں کامیاب ٹھہرا جبکہ ڈیموکریٹس کی امیدوار اگلے چار سال تک ( اگر اگلے انتخابات میں امیدوار نہ ہوئی تو) وگرنہ باقی زندگی کے لئے تمنائے اقتدار اور شکست کی شرمندگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گی۔ کسی بھی مقابلہ جاتی مہم میں کسی ایک فریق کی جیت اور باقی
کی ہار یقینی ہوتی ہے لیکن سپورٹس مین شپ کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ جیتنے والے امیدوار کی جیت کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا جائے، اسے مبارکباد دی جائے، اس کے ساتھ شانہ بشانہ ملک و قوم کی ترقی کی خاطر محنت کی جائے ( بالخصوص جہاں انتخابی مشینری کسی بھی قسم کے دباؤ یا حکومتی ؍ سیاسی اثر و رسوخ سے پاک ہو) اپنی پوری محنت، تیاری اور کوشش کے بعد ہونے والے فیصلے کو تسلیم کیا جائے جو مہذب جمہوری معاشروں کی روایات ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی پنڈتوں کے تمام اندازوں کو الٹ کر رکھ دیا، ان کی انتخابی مہم بذات خود ایک مذاق کی طرح رہی، جس میں وہ انتہائی کھلنڈرے اور لاپرواہ انداز میں اپنی سیاسی مہم کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کی بدن بولی، طرز تکلم، فقرے بازی میں عامیانہ اور جارحانہ پن، عرصے سے جاری ایک مخصوص سوچ کے خلاف علم بغاوت ( ساری دنیا کے امور میں ٹانگ اڑائے رکھنا) کا تاثر لئے ہوئے تھا، امیگرنٹ امریکی شہریوں کے متعلق سخت اقدامات کی وعید، امریکہ سب سے پہلے کے دعوی کے باوجود کامیاب ہونا تقریباً نا ممکنات میں سے ایک امر کا واقع ہونا ہے۔ دوسری طرف اگر بغور دیکھا جائے تو آج کا امریکہ درحقیقت اسی لئے امریکہ ہے کہ اس نے پوری دنیا کے ذہین ترین افراد کے لئے نہ صرف اپنی شہریت کھلی رکھی ہے بلکہ ان ذہین افراد کے لئے باقی دنیا سے کہیں زیادہ مراعات بھی دیتا ہے، آج تک امریکہ کا کردار ایک ایسے ملک کا رہا ہے جہاں دنیا کے کسی بھی خطے کا ہنر مند اپنے ہنر کی صحیح بلکہ منہ مانگی قیمت نہ صرف وصول کرتا ہے بلکہ اپنے ہنر سے امریکہ اور پوری دنیا کو مستفید کرتا ہے۔ نومنتخب امریکی صدر کی شناخت لگی لپٹی رکھے بغیر سیدھی بات کرنے کی ہے بالفاظ دیگر انہیں منہ پھٹ کہا جاتا ہے کہ جو وہ دل میں رکھتے ہیں وہ کھری کھری سنا دینے پر بھی قادر ہیں۔ لحاظ، مروت جیسے الفاظ و اقدار ان کی لغت میں موجود ہی نہیں اسی لئے اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے کھل کر انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کے حوالے سے نہ صرف بات کی بلکہ امریکہ میں موجود ایسے عناصر کو سخت الفاظ میں تنبیہ بھی کی کہ ایسے لوگوں کے لئے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں اور امریکی قوانین ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ ایسے افراد کے متعلق جانتی ہے تو قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا؟ کیا ایسے عناصر سے امریکی ادارے جانتے بوجھتے ہوئے چشم پوشی کرتے رہے ہیں؟ یا اس سے یہ مراد لی جائے کہ امریکی انتظامیہ خود ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتی رہی ہے جو دنیا کے دوسرے حصوں میں ہونے والی بد امنی میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں؟ اگر واقعتاً یہی حقیقت ہے کہ ایسے پوڈلز کو امریکی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے تو نو منتخب صدر کے لئے یہ کیونکر اور کیسے ممکن ہو گا کہ ایسے افراد کے خلاف اس انتظامیہ کو متحرک کر سکیں، جن کے نزدیک ایسے افراد ان کا سٹریٹجک اثاثہ ہوں؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کو ریاستی امور میں کلیدی حیثیت حاصل ہے اور وہ طے کردہ ریاستی مفادات و اہداف کے مطابق ہیڈ آف دی سٹیٹ سے فیصلے حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، دراصل یہ طاقت ریاستی اداروں کی مضبوطی اور
محب الوطنی کی وجہ سے ان اداروں کو حاصل ہے۔ نظام کے مطابق، یہ ریاستی ادارے پوری تندہی اور جانفشانی سے ریاستی مفادات کے حصول کی خاطر اپنی بھر پور توانائیاں صرف کرتے ہیں، کسی بھی منصوبے کی جزئیات پر بڑی باریک بینی سے طویل بحث کے بعد اس کی منظوری دیتے ہیں اور پھر اس پر پوری قوت و طاقت کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ عملدرآمد شروع ہونے کے بعد موقعوں کی مناسبت سے چھوٹی موٹی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں مگر مقصد وہی رہتا ہے، جو شروع میں طے کر لیا جائے۔ اس مختصر پس منظر کے بعد کیا نو منتخب صدر کے لئے یہ ممکن ہو گا کہ پہلے سے طے شدہ اہداف کو یکلخت بند کر دیا جائے یا یہ بھی کسی ریاستی منصوبے کا حصہ ہے کہ عوامی رائے شماری کی بنیاد پر انتہائی غیر محسوس انداز سے امریکی اپنے سابقہ منصوبوں سے منہ موڑتے ہوئے عالمی سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں؟ شرق و غرب اور شمال و جنوب میں امریکہ بے شمار مسائل میں ایک سرکردہ حیثیت رکھتا ہے، کیا امریکہ کے لئے یہ ممکن ہو گا کہ ایسی صورتحال میں اس طرح یو ٹرن لے؟ کیا واقعی امریکی اسٹیبلشمنٹ اور عوام، اپنے عالمی کردار سے ، اس حد تک زچ ہو چکے ہیں کہ اب وہ پہلے اپنے اندرونی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں؟ امریکی شہری آزادیاں یا تارکین وطن کو امریکی شہریت دینے کا مسئلہ اس حد تک گھمبیر ہو چکا ہے کہ امریکہ کو اپنی سالمیت کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے؟ کیا امریکی شہریوں کی زباں بندی کی کوشش ہو رہی ہے، ان کی شخصی آزادیوں پر قدغن لگائی جائے گی، ان کے آئینی حقوق پامال ہوں گے؟ نو منتخب صدر کے انتخاب کے بعد کیا وفاق امریکہ کو کوئی خطرہ لاحق ہو گا یا صرف شور و غوغا سے ہی صدر کو اپنی سوچ سے رجوع کرنا پڑے گا؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد چند ریاستوں میں احتجاج اور بے چینی کے واقعات رونما ہو بھی چکے ہیں اور عوام کو مطمئن کرنے
کی خاطر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بیانات سے رجوع بھی کر چکے ہیں مگر کیا تبدیلی سوچ حقیقی معنوں میں طویل مدتی ہو گی یا صرف وقتی طور پر عوامی احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کی سعی ہو گی؟۔ امریکہ کے اندرونی مسائل کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے پر ہنری کسنجر نے اپنے انٹرویو میں اسلام کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا تھا کیونکہ یہ جذبہ جہاد ہی تھا جس کی بدولت مجاہدین اسلام نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا، اس کو حصوں بخروں میں تقسیم کیا تھا اور اسی جذبے کی بدولت امریکی حکام راکھ میں چھپی اس چنگاری کو شعلہ بنتے ہوئے دیکھ رہے تھے لہذا امریکی مفادات کا تقاضہ تھا کہ کسی طرح اس چنگاری کو بھڑکنے سے قبل ہی راکھ میں دوبارہ دفن کر دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر بتدریج اسلام مخالف اقدامات کئے گئے اور مجاہدین اسلام کو بتدریج انتہا پسند کارروائیوں کی طرف مائل کیا گیا۔ 9؍11اس کا نقطہ کمال ٹھہرا اور جواباً کروسیڈ وار کا نشتر چلا کر گویا جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے، مسلم دنیا میں آگ و خون کا کھیل شروع کر دیا گیا۔ کسی بھی مسلم ریاست کو مستحکم نہ رہنے دیا گیا بالخصوص وطن عزیز، جس نے روس کے خلاف جنگ میں اہم بنیادی عسکری کردار ادا کیا تھا، اس کے استحکام کو سب سے پہلے زک پہنچائی گئی، اسے اندرونی و بیرونی شدید خطرات سے دوچار کر دیا گیا، مشرق و مغرب سے یلغار کرتے ہوئے اس کے امن و امان، معیشت و معاشرت کو مسلسل کھوکھلا کیا جا رہا ہے تا کہ جذبہ جہاد و ایمانی کسی صورت بھی پنپنے نہ پائے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اقتدار میں کوئی بھی شخص ہو، کسی بھی پارٹی کا ہو، ایک بات یقینی ہے کہ وہ حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہی بروئے کار آتے ہیں تاہم طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے، لیکن مقصد ہمیشہ امریکی ریاستی مفادات ہی ہوتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button