انسانی اسمگلنگ کے سدباب کیلئے خصوصی ٹاسک فورس کا قیام، احسن اقدام

بہتر اور تمام تر سہولتوں اور آسائشات سے آراستہ مستقبل ہر نوجوان کا خواب ہوتا ہے۔ ملک میں بے شمار نوجوان اسی مقصد کے لیے تندہی کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کرتے ہیں۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کافی نوجوانوں کا نصیب یاوری کرتا ہے اور اُن کو اپنی خواہش کے مطابق مستقبل سنوارنے کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔ جن کو ملک میں مواقع نہیں ملتے، وہ بیرونِ ممالک جانے کی سعی کرتے ہیں، بہت کم لوگوں کو بیرونِ ممالک جانے کے مواقع مل پاتے ہیں جب کہ اکثریت اس مقصد کے حصول میں ناکام رہتی ہے۔ جب قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے راستے مسدود ہوجائیں تو ایسے میں اپنے سنہرے مستقبل کے لیے بعض نوجوان غیر قانونی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوششوں میں جُت جاتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب بھولے نوجوان انسانی اسمگلرز کے ہتھے چڑھتے ہیں، جن سے یہ قصاب منہ مانگی قیمت وصول کرتے اور انتہائی خطرناک طریقوں سے ناجائز طور پر ڈنکی لگواکر سیکڑوں زندگیوں کو خطرات میں ڈالتے ہیں۔ ان ڈنکیوں کے دوران کئی نوجوان زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ گزشتہ برس یونان کشتی حادثے میں 300سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں انسانی اسمگلرز کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں ہوتی تھیں اور انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا جاتا تھا۔ وقت کی گرد پڑتے ہی انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیوں میں کمی آنے لگی اور پھر وہ بند ہی ہوکر رہ گئیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ گزشتہ مہینے پھر سے یونان میں کشتیوں کو حادثات پیش آئے، جن میں 40کے قریب پاکستانی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ ابھی اس واقعے کو فراموش بھی نہیں کیا جاسکا تھا کہ گزشتہ دنوں غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کی کشتی کو مراکش میں حادثہ پیش آیا، جس میں 50افراد زندگی سے محروم ہوئے اور ان میں 44پاکستانی شامل تھے۔ اس واقعے پر پوری قوم میں شدید غم کی لہر دوڑی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور وہ ملک میں انسانی اسمگلنگ کے مکمل خاتمے کے مشن میں لگ گئے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے سدباب کے لیے ناصرف خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جب کہ سربراہی وزیراعظم شہباز نے اپنے پاس ہی رکھی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے سدباب کیلئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کردی، ٹاسک فورس کی سربراہی وزیر اعظم خود کریں گے۔ وزیراعظم نے غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانیوں کی اموات کے واقعے پر ہفتہ وار اجلاس کی صدارت کی، اجلاس میں وزیراعظم کو اجلاس میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانیوں کی اموات میں ملوث گروہوں، پاکستان میں مختلف اداروں کی جانب سے گرفتاریوں، ایف آئی آرز اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ اب تک 6منظم انسانی اسمگلنگ کے گروہوں کی نشان دہی، 12ایف آئی آرز، 25ملوث افراد کی نشان دہی، 3اہم افراد کی گرفتاری، 16لوگوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جاچکے۔ اجلاس کو گاڑیوں، بینک اکائونٹس اور اثاثہ جات ضبط کرنے کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا، اجلاس کو ایف آئی اے کے مشتبہ اہلکاروں و افسران کی گرفتاریوں و کارروائی پر بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو اس حوالے سے بیرون ملک جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے بھی آگاہ کیا گیا، وزیر اعظم نے انسانی اسمگلنگ کے گروہوں کی نشاندہی کرکے انہیں عبرتناک سزا دلوانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث انسانیت کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے افراد کی گرفتاریوں میں تیزی لائی جائے، تمام ادارے بشمول وزارت خارجہ انسانی اسمگلروں کی نشاندہی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانیوں کی اموات کے دلخراش واقعے پر مجھ سمیت پوری قوم مغموم ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے خصوصی ٹاسک فورس کی تشکیل بڑا قدم ہے، اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث سفاک عناصر کسی رورعایت کے مستحق نہیں۔ ان کے خلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈائون جاری رکھا جائے اور ان کا خاتمہ ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ ان کے سرکاری سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائیاں جاری رہنی چاہئیں۔ انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کی جانب سنجیدگی سے بڑھتے قدم یقیناً بہتر نتائج سامنے لائیں گے۔
گرانی کیخلاف مزید اقدامات ناگزیر
پاکستان کے غریب عوام پچھلے 6، 7سال سے تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، اس گرانی نے ان کے لیے روح اور جسم کے رشتے کو اُستوار رکھنا ازحد مشکل بنادیا ہے۔ اس دوران آمدن تو وہی رہی، لیکن مہنگائی چار گنا بڑھی، 2018ء کے وسط کے بعد شروع ہونے والے ترقیٔ معکوس کے سفر نے ملک و قوم کو بے پناہ مصائب اور مشکلات سے دوچار کیا۔ اُس وقت گرانی کو بارہا دعوتیں دی جاتی رہیں۔ اشیاء مہنگی ہونے پر وفاقی وزرا فخریہ عوام کی مزید چیخیں نکلنے کے بیانات داغتے تھے۔ جیسے اُنہوں نے بیانات داغے، اُس سے بھی کہیں گنا زیادہ مہنگائی عوام پر مسلط کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، جو گرانی 2035۔40میں ہونی چاہیے تھی، وہ وقت سے بہت پہلے 2021۔22میں ہی غریبوں کے گلے کا طوق بنادی گئی۔ اس وجہ سے خودکشی کی شرح بے پناہ بڑھی۔ اس کے علاوہ کاروبار دشمن اقدامات کے باعث بے روزگاری کا
بدترین طوفان آیا۔ بہت سے اداروں نے اپنے آپریشن بند کیے۔ لوگوں کے برسہا برس کے جمے جمائے کاروبار بند ہوکر رہ گیا۔ معیشت کا پہیہ پہلے ہی جام تھا۔ صنعتوں میں کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ سب اُس وقت کی اناڑی حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کا شاخسانہ تھا۔ بہرحال گزشتہ برس فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں موجودہ اتحادی حکومت قائم ہوئی اور اس نے عوام کی حقیقی اشک شوئی کے لیے اقدامات یقینی بنائے۔ پہلی بار عوام کو زیادہ نہ سہی کچھ ریلیف ضرور ملا۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔ مہنگائی کا تھوڑا بہت زور ٹوٹا۔ معیشت کی راہ کا درست تعین کیا گیا، جس سے صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کیا ہے۔ حالات روز بروز سنور رہے ہیں، لیکن غریب عوام کی مشکلات اب بھی موجود ہیں۔ مہنگائی کا عفریت اُن کے لیے اب بھی سوہانِ روح سے کم نہیں۔ حالانکہ حکومت مسلسل مہنگائی میں کمی کے دعوے کررہی ہے، لیکن اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے نظر آرہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے مہنگائی کی ہفتہ وار شرح میں کمی کا دعویٰ کیا ہے جب کہ ایک ہفتے کے دوران14 اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مسلسل چوتھے ہفتے بھی مہنگائی میں اضافے کی شرح میں کمی کا رجحان جاری رہا۔ حالیہ ہفتے ملک میں مہنگائی میں اضافے کی شرح 1.16 فیصد سے کم ہوکر 0.52 فیصد کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی ہفتہ وار شرح میں 0.77 فیصد کی کمی واقع ہوئی جب کہ سالانہ بنیادوں پر بھی مہنگائی کی شرح میں اضافے کی رفتار کم ہوکر 0.52 فیصد کی سطح پر آگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ ایک ہفتے کے دوران 12 اشیاء ضروریہ سستی اور 14 کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جب کہ 25 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ حالیہ ایک ہفتے کے دوران ٹماٹر 33 فیصد، انڈے 10.23 فیصد، پیاز 10 فیصد تک سستے ہوئے، آلو 7.37 فیصد، دال چنا 1.61 فیصد اور چکن کی قیمت میں ایک فیصد تک کمی ہوئی۔ اسی طرح دال ماش، گڑ اور ایل پی جی نرخوں میں بھی معمولی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ان اشیاء کے برعکس ایک ہفتے میں چینی، کیلے، لہسن، چاول، گھی، دال مونگ اور لکڑی مہنگی ہوگئی ہے۔ اشیاء کی قیمتیں بڑھنا کسی طور مناسب امر نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف سے قوم کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے عوام سے جو وعدے کیے، اُن کے ایفا کے لیے وہ تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ گرانی غریبوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں، اُن کے مصائب میں کمی کے لیے لگے رہتے ہیں۔ غریبوں کی حقیقی اشک شوئی مہنگائی میں معقول حد تک کمی کرکے یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ ملک بھر میں گراں فروشوں، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کریک ڈائون کا آغاز کیا جائے اور سرکاری نرخ میں تمام اشیاء کی فروخت کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔