Column

انسانی اسمگلنگ

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

ان دنوں مملکت خداداد پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا جرم پیچیدہ صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سنہرے مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو تا جارہا ہے۔ یہ افراد انسانی اسمگلروں کے جال میں پھنس کر اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اور قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کا یہ مسئلہ نہ صرف ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے بلکہ قومی سلامتی کے لئے بھی خطرہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران پاکستان میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد نے انسانی اسمگلنگ کے دھندے کو فروغ دیا تھا۔ اس وقت سے یہ جرم مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ 1990ء کی دہائی میں مشرق وسطیٰ اور یورپ جانے کے رجحان نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ اس ضمن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے حال ہی میں ایک ایڈوائزری جاری کی ہے۔ یہ ایڈوائزری 20سال بعد جاری کی گئی ہے اور اس میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاص طور پر منڈی بہائوالدین، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جہلم، ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظ آباد، شیخوپورہ اور بھمبر جیسے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایڈوائزری کے مطابق 15سے 40سال کی عمر کے مسافروں پر کڑی نگرانی کی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ 15ممالک جیسے آذربائیجان، ایتھوپیا، سینیگال، کینیا، روس، سعودیہ، مصر، لیبیا، ایران، موریطانیہ، عراق، ترکیہ، قطر اور کرغستان کو یورپ انسانی اسمگلنگ کے لئے ٹرانزٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایڈوائزری میں انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے کئی اہم اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ مشکوک مسافروں کے سفری مقاصد اور مالی انتظامات کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ ایئر ٹکٹ، ہوٹل بکنگ اور وزٹ ویزوں کی مکمل جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ مشکوک مسافروں کا مکمل ریکارڈ رکھنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کا فقدان ہے۔ متعلقہ اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان اور وسائل کی کمی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کے بجائے اکثر اوقات چھوٹے مجرموں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ بڑی مچھلیاں قانون کی گرفت سے باہر رہتی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف موجودہ قوانین کو مزید سخت اور جامع بنایا جائے۔ ایف آئی اے، پولیس اور دیگر اداروں کے درمیان موثر رابطے کو یقینی بنایا جائے۔ انسانی اسمگلنگ کے خطرات کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے میڈیا مہم چلائی جائے۔ ان ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا جائے جہاں انسانی اسمگلنگ کے کیس زیادہ ہیں۔ انسانی اسمگلروں کو نشان عبرت بنانے کے لئے سخت سزائیں دی جائیں۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ حکومت کے حالیہ اقدامات قابل ستائش ہیں لیکن ان کی کامیابی کا انحصار موثر عملدرآمد پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کے پیچھے چھپے معاشرتی اور اقتصادی عوامل کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوشش نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button