Column

نذیر احمد زاہد۔۔۔ شخصیت اور فن

تحریر : رفیع صحرائی

اکثر لوگ دنیا میں زندگی گزارتے ہیں۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو زندگی جیتے ہیں۔ زندگی گزارنا اور زندگی جینا دو مختلف طرزِ حیات ہیں۔ زندگی تو جانور بھی گزارتے ہیں۔ بے مقصد زندگی گزارنے والے لوگ جانوروں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ انسان نہیں کہلا سکتے۔ زندگی کا نصب العین مقرر کر کے اس کے مطابق زندگی جینا ہی زندگی کا مقصد ہے۔ اپنے لیے تو سبھی زندگی جیتے ہیں۔ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا اور مخلوقِ خدا کی بھلائی ہے۔ جو زندگی کا مقصد پا گیا وہ معاملات میں کھرا انسان ٹھہرتا ہے۔ نذیر احمد زاہد بھی ایسا ہی کھرا سچا اور سُچا انسان تھا جس نے ضلع قصور کے ایک قصبے کنگن پور میں جنم لیا مگر اپنے کردار اور کاموں کی بدولت ملک گیر شہرت پائی۔ ایک محنت کش خاندان میں جنم لینے والے نذیر زاہد پیشے کے لحاظ سے فوٹوگرافر تھے۔ کنگن پور میں سنگم فوٹو سٹوڈیو کے نام سے اپنا کاروبار شروع کر رکھا تھا۔ ان کی زندگی کے کئی پہلو تھے۔ وہ بیک وقت ایک اچھے فوٹوگرافر، صحافی، ڈراما نگار، اداکار، ہدایتکار، سوشل ورکر، پبلشر، شاعر اور نعت خواں تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ Jack of all trades نہیں تھے بلکہ ان تمام شعبوں میں مہارت رکھتے تھے۔انہوں نے اس وقت چند ٹیلی فلمیں اور ڈرامے بنا کر شہرت حاصل کی تھی جب اس میدان میں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ کی کیتا تقدیرے، بڈھا سوا لکھ دا، چن بادشاہ ان کی معروف پروڈکشن ہیں۔ انہوں نے کنگن پور کی سرزمین پر متعدد سٹیج ڈرامے بھی پروڈیوس کیے۔ کنگن پور کی معروف ادبی و ثقافتی شخصیت صابر بسمل مرحوم سے انہوں نے بہت فیض حاصل کیا۔
نذیر احمد زاہد نے پنجابی زبان میں کتاب لڑی پریت کا آغاز کیا جس کے چار شمارے شائع ہو
سکے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ ماں بولی پنجابی کے سچے سیوک تھے اور پنجابی زبان کے فروغ کے لیے عملاً کوشاں رہتے تھے۔ ان کی شاعری کی پانچ کتابیں چن دا پرچھاواں، جند تسیہے لیندی رہی، اور تنہائی کیا ہو گی، ادریواں اکھ دا اور آنکھیں بادل اور دریا منصئہ شہود پر آ چکی ہیں۔ جبکہ ان کا کلام پاکستان کے معروف اخبارات اور جرائد میں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہا ہے۔
سماجی خدمات کے حوالے سے دیکھا جائے تو اپنے والدین کے نام پر ایف بی ویلفیئر ٹرسٹ قائم کر کے انہوں نے مساکین اور ضرورت مندوں کی عملی خدمت کو مشنری جذبے کے تحت زندگی بھر جاری رکھا۔ اب ان کے بیٹے باپ کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔1982 ء میں انجمن ذوقِ ادب کے نام سے انہوں نے ادبی تنظیم قائم کی جس کے زیرِ اہتمام مقامی و غیر مقامی شعراء کو بلوا کر ہفتہ وار مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ 1996ء میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے نذیر زاہد نے پنجابی ادبی سانجھ کے نام سے تنظیم قائم کی۔ وہ سیمابی طبیعت کے مالک تھے۔ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار رہتے تھے۔ بہت زیادہ مصروفیات نے ان کی صحت پر برا اثر ڈالا اور انہیں دل کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ اس سے بھی ان کی سرگرمیوں پر فرق نہ پڑا۔ نتیجے کے طور پر انہیں تین مرتبہ ہارٹ اٹیک کے جان لیوا مراحل سے گزرنا پڑا۔ 2017ء میں انہیں اسٹنٹ ڈالا گیا اور سرگرمیاں محدود کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ اس ہدایت پر انہیں مجبوراً عمل کرنا پڑا کہ آپریشن کے دوران کوئی پیچیدگی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی تکلیف بڑھنے لگی۔ ان کے بیٹوں جاوید ساحر، امجد نذیر اور فیصل نذیر انمول کے ساتھ ساتھ ان کے نواسے ذیشان حیدر نے اولاد ہونے کا حق ادا کر دیا۔ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس انہیں لے کر مارے مارے پھرتے رہے مگر وعدے پورے ہو چکے تھے۔ 25جنوری 2018ء کو یہ چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا جس نے اپنے خونِ جگر کو تیل بنا کر کنگن پور میں ادبی ، ثقافتی اور سماجی شمع روشن کر رکھی تھی۔ ان کے تینوں ہونہار بیٹے اپنے والد کی سماجی اور ادبی خدمات کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آخر میں نذیر احمد زاہد کے چند اشعار
ایناں ڈر نہیں مینوں پنڈ دے چوہدری دا
جِن اں ڈر اے زاہد اوہدے گولے دا
بندے ویچن لگ پئے گُردے بُھکھاں توں
جیوندے وی پئے جاپن مُردے بُھکھاں توں
چوراں دے گھر چور نہیں پیندے
گھر دے پیندے ہور نہیں پیندے
جہڑی تھاں تے فاقے نیں
اوسے تھاں تے ڈاکے نیں
اک وڈیرے ساہویں کمی
اندروں گالھاں بک رہیا سی
پگ کسے تے سجدی اے
ہر بندا پردھان نہیں ہوندا
زر کے ہاتھوں کتنے ہی مجبور خریدے جاتے ہیں
سچ کا سودا ہوتا ہے منصور خریدے جاتے ہیں

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button