جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( سترہواں حصہ)

کئی برس قبل جیلوں میں طویل قید گزارنے والے قیدیوں کو ان کی فیملی سے ملاقات کے لئے رہائشی کمروں کی تعمیر کی تجویز تھی۔ کمروں کی تعمیر کے باوجود قیدیوں کو ان کی فیملیوں سے ملاقات سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہائشی کمروں کے ساتھ کچن اور باتھ رومز کی سہولت ہے تاکہ قیدیوں سے ملاقات کے لئے آنے والی فیملیز کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جیلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز قائم کرنے سے قیدیوں کو کنٹین کنٹریکٹروں کی لوٹ کھسوٹ سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ گئی ہے۔ پیرول پر قیدیوں کی رہائی کیلئے جو پالیسی بنائی گئی ہے اس پر ہم معترض ہیں۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں جن قیدیوں کی رہائی میں پانچ چھ سال رہتے تھے انہیں پیرول پر رہائی مل جاتی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت میں پیرول پالیسی میں تبدیلی کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ گزشتہ ماہ پیرول کے لئے کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں صرف چھ ان قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دی گئی جن کی رہائی میں ایک دو سال رہتے تھے سوال ہے جب قانون میں قید کا ایک تہائی حصہ پورا کرنے والوں کو پیرول پر رہائی مل سکتی ہے تو کابینہ کمیٹی کا اپنے طور پر پیرول کی پالیسی بنانے کا کیا جواز ہے ؟ پی ٹی آئی کے دور میں پیرول پر رہائی پانے والے قیدیوں کو اپنے آبائی اضلاع کے علاوہ کہیں بھی مشقت کرنے کی اجازت دینے کی تجویز تھی جس پر نہ جانے کیوں عمل نہیں ہو سکا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے زیادہ سے زیادہ قیدیوں کو پیرول پر رہا کیا جائے تاکہ جیلوں میں نئے آنے والے قیدیوں کے لئے رہنے کی گنجائش پیدا ہو سکے اگر ایسا ہو جائے تو صوبائی حکومت کو مالی طور پر خاصی بچت ہو سکتی ہے مسلم لیگ نون کے گزشتہ دور کی طرح پیرول کمیٹی کیا ہر ماہ اجلاس ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔ قیدیوں کو دوسری جیلوں میں شفٹ کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے معمولی معمولی باتوں پر قیدیوں کو اپنے آبائی ضلع سے چھ سو کلو میٹر دور واقع جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے کیا قیدیوں کو دور دراز جیلوں میں بھیجنے سے قیدیوں کی اصلاح کے مقاصد پورے ہونے میں مدد ملتی ہے؟۔ قیدیوں کی اصلاح کا یہ کون سا طریقہ ہے انہیں دور دراز جیلوں میں بھیج دیا جائے۔ قیدیوں کو دور دراز جیلوں میں بھیجنے سے ان کے اہل خانہ جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جیل حکام اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ محکمہ جیل خانہ جات نے آسان طریقہ اپنا رکھا ہے جو قیدی انہیں پسند نہ ہوں اسے دور دراز جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی قیدی جرم کرتا ہے تو جیلوں میں قیدیوں کو سزا دینے کے لئے punishment blockموجود ہیں انہیں وہاں بند رکھا جا سکتا ہے نہ کہ انہیں آبائی اضلاع سے پانچ سو کلو میٹر دور بھیج کر ان کی اصلاح ممکن ہے۔ جیل حکام کو قیدیوں کے ساتھ اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے آخر قیدی بھی انسان ہوتے ہیں ان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
انسان زندگی کے کسی شعبہ میں ہو اسے حق تعالیٰ کی ذات کا خوف رکھنا چاہیے ایک روز ہم سب کوایک ایسی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے جہاں بے لاگ فیصلے ہوں گے جہاں نہ کسی بڑے اور نہ چھوٹے کی سفارش کام آئے گی۔ علیل قیدیوں کی بات کریں تو جیلوں میں تعینات میڈیکل آفیسر قیدیوں کو چیک کرنے کی بجائے ادویات کی ٹرے ڈسپنسرز کے ذریعے بیرکس اور سزائے موت میں بھیج کر اپنے فرائض سے عہدہ برآہو جاتے ہیں جو مناسب نہیں۔ اب تو ایک کی بجائے دو تین میڈیکل آفیسر اور ماہر نفسیات جیلوں میں رکھے گئے ہیں لہذا سپرنٹنڈنٹس کی یہ ذمہ داری ہے وہ میڈیکل آفیسروں کی کارکردگی پر نظر رکھیں۔ جیلوں کے ہسپتالوں کا نظام محکمہ صحت کے حوالے کرنے کا مقصد یہ نہیں میڈیکل آفیسروں کو کوئی پوچھ نہیں سکتا بلکہ وہ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ جیل ہسپتالوں میں مالی اعتبار سے خوشحال صحت مند حوالاتیوں اور قیدیوں کو رکھنے کا رواج بہت پرانا چلا آرہا ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے جیلوں کے
اچانک دورے ہونے چاہئیں دورہ کرنے والے سب سے پہلے ہسپتال جا کر اس امر کا پتہ چلائیں کون واقعی علیل ہے یا ویسے مبینہ طور پر نذرانہ دے کر داخل ہوا ہے۔ میڈیکل آفیسروں کو نہ صرف ہسپتال میں قیدیوں کا علاج معالجہ کرنا چاہیے بلکہ انہیں ہفتہ وار بیرکس میں جا کر بھی قیدیوں کا حال احوال کرنا چاہیے ۔ قیدیوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کوئی قیدی تعلیمی استعداد میں اضافے کے لئے امتحانات پاس کرتا ہے تو اس کی معافی کا کیس آئی جی آفس کو بھیجا جاتا ہے۔ عجیب تماشا ہے سابق آئی جی مبشر ملک قیدیوں کو تعلیمی معافی دینے کا اختیار ڈی آئی جیز کو دے گئے تھے اب ڈی آئی جیز سے معافی دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے ۔ قیدیوں کی معافی کے کیسز مہینوں نہیں سالوں آئی جی آفس پڑے رہتے ہیں۔ کیا معافی دینے کا اختیار ڈی آئی جیز کو دینے سے قیدیوں اور ان کے لواحقین کے لئے آسانی نہیں دی یا پھر وہ صوبائی دارالحکومت کے چکر لگاتے رہیں وہ بہتر ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے اور قیدیوں کو تعلیمی معافی دینے کا اختیار ریجن کے ڈی آئی جیز کے پاس ہونا چاہیے تاکہ قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو معافی کے حصول کے لئے صوبائی دارالحکومت کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔ ہمیں خود اس کا تجربہ ہو چکا ہے آئی جی آفس سے معافی کی منظوری نہیں آئی تو ہمیں عدالت عالیہ سے رجوع کرنا پڑا۔ یہ تو بھلا ہو ہمارے مہربان ہائی کورٹ کے اس وقت کے جسٹس جناب عبادالرحمان لودھی اور مرحوم جسٹس شاہد عباسی کا جن کے احکامات پر محکمہ جیل خانہ جات نے ہمیں تعلیمی معافی دینے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی جیلوں میں اصلاحات کے لئے قائم کردہ کمیٹی کو ان تمام امور کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے جن کا یہ ناچیز اپنے پہلے کالموں میں کر چکا ہے ورنہ پہلے کی طرح فائلوں کا پیٹ بھرنا مقصود ہے تو ایسی کمیٹیوں کے قیام کا کوئی فائدہ نہیں لہذا کمیٹی کو ان تمام امور کا بغور جائزہ لینا چاہیے جن سے قیدیوں کی مشکلات اور مبینہ کرپشن کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہو۔