کرپٹ عوامی محکمہ

تحریر : روہیل اکبر
گزشتہ دنوں بابو صابو چوکی انچارج سیف اللہ نیازی کو اس کے پرائیویٹ ملازم ( کار خاص) نے اسی کے پستول سے گولی مار کر قتل کر دیا۔ ملزم عدیل نے بتایا کہ مقتول انسپکٹر بدتمیز اور معمولی بات پر گالیاں نکالتا تھا، جس کی وجہ سے اسے قتل کر دیا بدقسمتی سے یہ رویہ صرف ایک پولیس والے کا ہی نہیں بلکہ ہماری پوری پولیس کا یہی کلچر ہے اور اس کلچر میں رہتے ہوئے اس وقت سفارش، رشوت، بددیانتی، لوٹ مار، بدمعاشیاں، قتل و غارت اور پرتشدد کارروائیوں میں اگر کوئی محکمہ سب سے آگے ہے تو وہ پولیس کا محکمہ ہے، جن کے تھانے عقوبت خانے اور ملازمین دہشت کی علامت ہیں۔ اس محکمہ کے بارے میں عوامی رائے لیں تو اکثریت ان کے گندے کردار کی وجہ سے نہ صرف ان سے نفرت کرتے ہیں بلکہ ان کے ملنے جلنے والوں کو بھی برے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ عوامی رائے کو چھوڑیں اسے کوئی مانتا ہے اور نہ ہی کوئی تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی کہیں عوام کی عزت ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نے 2010ء پنجاب پولیس کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں صوبے کا سب سے کرپٹ عوامی محکمہ قرار دیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق پولیس فورس کے ارکان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جس کی انہوں نے بہت سی مثالیں بھی دیں، جنہیں پڑھیں تو یقین ہونے لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے غنڈے، بدمعاش اور رسہ گیر پولیس کی سرپرستی میں یا پھر ان کے ظلم و ستم کے بعد ہی پروان چڑھتے ہیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن کی پولیس کے بارے میں درج کردہ چند رپورٹس لکھ رہا ہوں، باقی آپ خود ان کے بارے میں اندازہ لگا لیں۔
نومبر 2017ء میں فیصل آباد میں پولیس نے ایک شخص کو قتل کر دیا گیا جسے ڈاکو بنا کر پیش کیا گیا وہ ایک غیر مسلح شہری تھا جس کا گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی رشتہ دار کے ساتھ معاشقہ تھا اور پولیس افسر نے اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ 20 نومبر 2017ء کو پنجاب پولیس کے دو افسران نے ایک خاتون کے کپڑے پھاڑ کر ویڈیو بنائی اسے بلیک میل کیا اور پھر ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کردی، فیصل آباد میں ہی پولیس نے ساتھی پولیس افسر کی بیوی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی، اسی طرح بہاولپور پولیس نے ایک 12سالہ بچے کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ اس کے والد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے، جس کا نام ایف آئی آر میں شوگر مل میں گنے کی قیمت کے تنازع پر درج کیا گیا تھا اور لڑکا اپنی سکول کی کتابیں بھی جیل لے آیا۔ رحیم یار خان میں اے ٹی ایم پر منہ چڑانے والے ذہنی معذور شخص کے ساتھ پولیس نے جو کیا وہ بھی یاد ہوگا اور پولیس مقابلوں میں بندے پار کرنے کا جو ہنر ہمارے شیر جوانوں کے پاس ہے وہ بھی عابد باکسر نے کھلے دل سے بتا دیا ہے اور پھر اس کے ساتھ جو ہوا وہ بھی اخبارات کی زینت بن چکا ہے۔
پولیس وردی میں چھپی کالی بھڑوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی نفرت کو مدنظر رکھتے ہوئے 2017ء میں پنجاب پولیس نے کالی شرٹ اور خاکی پینٹ پر مشتمل اپنی معیاری یونیفارم کو تبدیل کر دیا، جسے خان قربان علی خان کے حکم کے تحت جی ایم چودھری اینڈ سنز (1916ء سے سرکاری ٹھیکیداروں) نے ڈیزائن کیا تھا، یوں وردی کا رنگ زیتون سبز کر دیا گیا لیکن پولیس والوں کے رویہ میں تبدیلی نہ آئی۔ اس وقت پنجاب میں 737، سندھ میں 1046، خیبر پختونخوانہ میں 511، بلوچستان میں 383گلگت بلتستان میں 104اور اسلام آباد میں 25تھانے موجود ہیں۔ ان میں سے گلگت بلتستان کے اکثر اور خیبر پختونخوا کے چند ایک تھانے نکال کر باقی سب کے سب دہشت کی علامت ہیں، جہاں جرائم کو ختم نہیں بلکہ پروان چڑھایا جاتا ہے، جہاں عام لوگوں کے کپڑے اتار کر انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہی تھانوں میں ایسی ایسی گندی اور غلیظ گالیاں اتنی بے شرمی اور ڈھٹائی سے نکالی جاتی ہیں کہ سامنے والے کے کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہ تھانے موجودہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے بہت حد تک تبدیل کروا دئیے ہیں، جہاں شادی شدہ جوڑوں کو بلوا کر فوٹو سیشن بھی کروائے گئے، تاکہ لوگوں کے اندر جو نفرت ہے اسے کسی حد تک کم کیا جاسکے، لیکن آئی جی ان کوششوں پر پولیس والے پوری کوششوں سے پانی پھیر رہے ہیں، کہ عوام میں نفرت کا سلسلہ یونہی بڑھتا رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی چند پولیس افسر اس محکمے میں موجود ہیں جن کی وجہ سے لوگ اس محکمہ کی عزت کرتے، ان میں شوکت عباس، خرم شکور، فیصل کامران، آصف بہادر اور شاہد خان چدھڑ سمیت چند اور افسر شامل ہیں اور یہ سب کے سب طاہر انوار پاشا اور شیخ اسرار احمد ( مرحوم) کے جانشین ہیں جو پولیس کی عزت بحال کرنے میں پوری کوشش کر رہے ہیں، لیکن جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں نیک نام اور محنتی افسران کی کوشش بھی رائیگاں جاتی ہے، لیکن یہ لوگ اس چڑیا کی مانند ہیں جو اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لیکر اس آگ کی طرف دیوانہ وار بھاگی جس میں حضرت موسیٰ ٌکو پھینکا گیا تھا شائد اسی لیے ان افسران کی نیک نامی، محنت اور حب الوطنی کا اثر ان کی اولادوں میں نمایاں نظر آتا ہے جبکہ گندے لوگوں کا اثر بھی ان کی اولادوں میں دور سے نظر آجاتا ہے۔
اس وقت اگر پنجاب پولیس کی بات کریں تو پنجاب بھر کا کوئی بھی تھانہ ایسا نہیں جسے ہم مثالی کہہ سکیں، پنجاب کے دور دراز علاقوں کو تو چھوڑیں وہاں پر پولیس کا ظلم کیا رنگ لیے ہوگا، آپ لاہور کے کسی ایک تھانے کو دیکھ لیں جہاں وزیر اعلیٰ سے لیکر نیچے تک ہر سطح کا افسر موجود ہے، لیکن پھر بھی تھانوں میں تشدد نہ صرف ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔ کسی بھی تھانے میں بند ملزمان کا میڈیکل کروا لیں ایک بھی بندہ بغیر تشدد کے نہیں ملے گا اور اس دوران جو جو گالیاں اس نے زندگی میں نہیں سنی ہونگی، وہ ہر وقت اسے نہ صرف سننے کو ملیں گی بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔ باغ جناح کے سامنے ایک طرف پولیس کلب ہے جہاں پولیس افسر رہتے ہیں اور ساتھ ہی لاہور چیمبر آف کامرس ہے اور ساتھ ہی تھانہ ریس کورس اور سول لائن ہے، جہاں ہر وقت گالیوں کی گردان سننے کو ملتی ہے اور رات ہوتے ہی تشدد کی نئی نئی قسمیں دریافت ہوتی ہیں۔
اس وقت ڈاکٹر عثمان انور پنجاب پولیس کے 59ویں آئی جی ہیں، جو فراغ دل ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس میں مثبت تبدیلیاں بھی چاہتے ہیں، اسی لیے تو انہوں نے گندی اور غلیظ گالیاں دینے والے شاہد جٹ کو بھی گلے لگا کر معاف کر دیا، لیکن کچھ لوگ الٹ ذہن کے ہوتے ہیں جو گالیاں اور بے عزتی برداشت نہیں کرتے، بلکہ بدلے کی آگ میں جلنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر نتیجہ سیف اللہ نیازی کے قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔ سیٹھ عابد پاکستان کی مشہور شخصیت ہیں، ان کی تمام اولاد میں سے ایک بیٹا ہی جسمانی اور ذہنی طور پر ٹھیک تھا، لیکن اسے بھی اس کے ہی سیکیورٹی گارڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا، وجہ بے عزتی تھی، جو اس سے برداشت نہیں ہوئی۔ اس لیے اپنے عہدہ اور رتبہ کی وجہ سے عوام میں اچھا مقام بنائیں، آج سیٹ پر ہیں، کل نہیں ہونگے تو کوئی آپ کو منہ نہیں لگائے گا۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور آپ کی مدت ملازمت ختم بھی ہوجائیگی۔ لاہور کے سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ بھی انتہائی محنتی افسر ہیں، مجھے ان کی پہلے دن پولیس میں آمد آج بھی یاد ہے، ساہیوال میں ایس ایس پی حامد مختار گوندل صاحب ہوا کرتے تھے، ان جیسا اچھا پولیس افسر میں نے آج تک نہیں دیکھا، اس وقت میں ساہیوال میں صحافت کرتا تھا اور گوندل صاحب سے بہت پیار تھا، وہ بھی چھوٹے بھائیوں کی طرح لاڈ کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں اور گوندل صاحب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ بلال صدیق کمیانہ صاحب اندر داخل ہوئے اور گوندل صاحب کو اپنے بارے میں بتایا تب مجھے علم ہوا کہہ اس نوجوان کا آج پولیس میں بطور اے ایس پی ( انڈر ٹریننگ) آج پہلا دن ہے، وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور آج کمیانہ صاحب سی سی پی او لاہور ہیں اور حامد مختار گوندل صاحب ڈی آئی جی بن کر ریٹائر ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگئے۔ اس لیے پولیس میں رہتے ہوئے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، ورنہ بعد میں پچھتانے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا۔