جنگ بندی غزہ کی ثابت قدمی اور مزاحمت کا نتیجہ

تحریر : ایم فاروق قمر
فلسطین اور اہل غزہ 471دن تک اپنی بے مثال ہمت، مظلومیت اور مزاحمت کی داستان رقم کر دی۔ ایک عرصے سے جہاں غزہ لہو لہو ہے اور دنیا کی سب سے بڑی بے مقتل گاہ بنا رہا اور دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بنتا جا رہا تھا میں اب جنگ کے بادل جھٹ چکے ہیں۔ اس جنگ کے دوران جہاں ناقابل تلافی نقصان ہوا وہاں غزہ کھنڈر بنا رہا۔ ہسپتال، مسجد، گھر اور سکول کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ لوگوں کے جہاں گھر تباہ ہو گئے وہاں سخت سردی کے موسم میں اہل غزہ ٹھٹھراتی ہوئی رات میں بچے، بڑے، بوڑھے بے سر و سماں بغیر چھت کے زمین پر سوتے رہے تو یہ منظر دیکھ کر روح کانپ جاتی تھی، اس کے باوجود اہل غزہ نے ثابت قدمی اور استقامت کا ثبوت دیا۔ سرزمین انبیاء ، بیت المقدس کے نظریں کسی صلاح الدین ایوبی کی منتظر تھی کہ کب آئے اور اس سرزمین کو بدمست وحشی درندے یہودیوں کے ناپاک قدم سے پاک کرے۔
ان 15ماہ سے جاری جنگ میں 46ہزار 704فلسطینی شہید ہوئے اور ایک لاکھ دس ہزار فلسطینی مسلمان زخمی ہوئے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اس کے علاوہ چار لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ مگر اس کے باوجود اہل غزہ کا حوصلہ پست نہیں ہوا اپنے بہادر بیٹوں کا خون دے اور دیکھ کر ان لوگوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ وہ ثابت قدم رہے ، استقامت رہے اور اعلی حوصلے کی مثال قائم کی۔ انصاف کا راستہ فلسطین کے لیے بھی ایک طویل راستہ ہے اور اس عرصے میں اقوام متحدہ کا کردار ایک کٹھ پتلی کا رہا ہے ۔
قابض اسرائیل بدمست ہاتھی نے وحشی درندے کی مثال بن کر چنگیز اور ہلاکو خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف بھی فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں روک سکی اور نہ ہی اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرا سکی ۔ دنیا بھر میں قابض اسرائیل کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ امریکہ میں طلبہ نے مظاہرے کیے اور برطانیہ میں ایک تاریخی لانگ مارچ کیا گیا مگر قابض اسرائیل کے کان پر جوں تک نہ رنگی۔ اس کے حمایتی اس کے ساتھ کھڑے رہے امریکہ یورپ اور برطانیہ نے نہ صرف اسرائیل کی حمایت کی بلکہ اسے دفاعی تحفظ بھی فراہم کیا۔ یہود مخالف اور ہولو کاسٹ کے قوانین صیہونیوں اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جن کے تحت ان پر تنقید کرنے والوں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ اس سارے عرصے کے دوران مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی کا کردار ایک نیم بسمل یونین جیسا رہا ہے جو آنکھیں تو رکھتی ہے مگر قوت پرواز نہیں رکھتی۔ امریکہ میں نوجوانوں کی اکثریت اسرائیل کی نسل کشی مہم کے خلاف ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک کے مرکزی شہروں میں واقع کالجز اور سڑکوں پر جس طرح طلبہ نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے۔ اس نے مغربی نوجوانوں کی سوچ کی عکاسی کی ہے۔ یہ مظاہرے مغربی ممالک میں منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔
اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف اگر کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے تو اسے ویٹو کر دیا جاتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے نیتن یاہو کو ایک جنگی مجرم قرار دیا ہے اور مگر اسے گرفتار کرانے میں عمل درآمد نہیں کرا سکی۔ مغرب کے لیے اسرائیل کی حمایت کا مقصد گریٹر اسرائیل کا قیام ہے۔ تاکہ وہ مشرق وسطیٰ اور اس کے بے پناہ وسائل کو اپنے کنٹرول میں کرے۔ ان کے نزدیک گریٹر اسرائیل ایک ایسی آبادی پر مشتمل ہوگا۔ جہاں اکثریت اسرائیل ہو اور وہ ایک متبادل عالمی آرڈر نافذ کرے گا۔
حیرانی کی بات یہ ہے اسرائیلی ایک چھوٹی سی ریاست ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر بھاری ہو چکی ہے۔ مسلمان ممالک اور ان کی حکمرانوں کے لیے یہ المیہ ہے کہ اتنی تعداد میں مسلمان ہونے کے باوجود کشمیر ، فلسطین، عراق ، شام اور لیبیا میں ظلم و ستم کا شکار ہیں اور یہ سب کچھ ان کی نا اتفاقی اور متحد نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اب چونکہ 15جنوری کو چھ ہفتے کی جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے جس پر عمل درآمد 19جنوری بروز اتوار سے ہوا۔ جس میں اہم کردار قطر، امریکہ اور مصر نے ادا کیا اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی کردار ادا کیا۔یہ معاہدہ اہل غزہ کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پر نہ صرف اہل فلسطین نے خوشی کا اظہار کیا بلکہ دنیا کے دوسرے مالک نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ دوسری طرف اسرائیل کا وزیراعظم جو ایک جنگی مجرم بھی ہے کے تین انتہا پسند وزیروں نے جنگ بندی ہونے پر اعلانیہ وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ مشرق وسطیٰ میں اگر کشیدگی جاری رہی اور اس نے دوبارہ جنم لیا تو یہ ایک تیسری عالمی جنگ یہ صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے اس جنگ بندی کے فریقین کو جنگ بندی معاہدے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ جس میں امریکہ جو ایک ایک عالمی طاقت ہے اس کا کردار اہم ہوگا۔
جنگ بندی معاہدے کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ اسرائیل اپنے کیے گئے معاہدے پر کتنا کاربند رہتا ہے۔ ماضی میں بھی اگر دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کو توڑنے اور بہانے بنانے میں ماہر ہے کہ یہ اس کی غلطی نہیں تھی۔ اس جنگ بندی میں اسرائیلی فوج جدید ہتھیاروں سے امریکہ ، برطانیہ اور یورپی اقوام کی حمایت سے بے گناہ فلسطینی شہریوں کو احتجاج مظاہروں کی پروا کیے بغیر شہید کرتی رہی اور دنیا کی عالمی طاقتیں سوائے مذمت احتجاج کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ اس جنگ میں اہل غزہ نے نہ صرف حسن نصر اللہ کو کھویا بلکہ اسماعیل ہنیہ اس کے بیٹوں اور یحییٰ شنوار کو بھی کھو دیا۔ 19جنوری 2025سے نافذ العمل یہ معاہدہ قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی سے طے پایا۔ جس میں اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی مردوں ،عورتوں اور بچوں کی رہائی ہوگی۔ یعنی قابض اسرائیل کو اپنے قیدی رہا کروانے کے لیے مجبورا معاہدہ کرنا پڑا اور اہل غزہ فلسطین نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان اگر ڈٹ جائے تو بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے جھکا نہیں سکتی۔ اب دنیا اور مسلم امہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ جس طرح یورپ امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کی ہر طرح سے مدد کی، اسی طرح سے وہ بھی فلسطین کی تعمیر نو میں کھلے دل کا مظاہرہ کریں ۔ فلسطین کی مدد کرنے اور ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام یقینی بنانا ہی اس تنازع کا واحد حل ہے۔ اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن فلسطین کے منصفانہ حل ہی سے مشروط ہے۔
امید ہے اس مشکل گھڑی میں قطر ، فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی مسلم امہ اسے تنہا چھوڑے گی اس کی مالی اور دفاعی امداد بھی کریں گے اور ایک مسلم بھائی ہونے کا عملی ثبوت بھی دیں گے۔ اور مسلمان ممالک او ائی سی کے پلیٹ فارم سے موثر اور متحرک سفارت کاری کے ذریعے اپنا کردار ادا کریں گئے اور منصوبہ بندی کریں گئے تاکہ مستقبل میں کسی بھی مسلم ممالک کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ اب عالمی برادری اور خصوصا عرب ممالک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطین کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ اہل غزہ دوبارہ معمول کی زندگی شروع کر سکیں۔ یہ اتنا آسان تو نہیں ہوگا، مگر اہل غزہ پر امن ہیں، پرجوش ہیں اور تباہ حال علاقے اور کھنڈرات پر زندگی شروع کر رہے ہیں۔ امید ہے پاکستان بھی غزہ کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ کیونکہ مسلم امہ اخوت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔