Column

گوادر پورٹ اور سندھ طلبہ یونین

تحریر : روہیل اکبر
گوادر پورٹ کے خلاف محاذ آرائی اور سندھ میں طلبہ یونین پر قرار داد کثرت رائے سے مسترد کردی گئی ان دونوں معاملات پر بات کرنے سے پہلے چند باتیں ان کاروباری لوگوں کی جن کا مستقبل درمیانے درجے کے کاموں اور انٹرنیٹ سے وابسطہ ہے وہ اس وقت شدید کرب کا شکار ہیں اور اگر انہیں حکومت نے بلاسود قرضوں کی آکسیجن فراہم نہ کی تو پھر حالات کسی طرف بھی جاسکتے ہیں اس وقت ہماری بڑی اور چھوٹی انڈسٹری تقریبا ختم ہو چکی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کی اقتصادی بحالی کا انحصار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو بااختیار بنانے مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور نجی شعبے کی مکمل صلاحیتوں کو کھولنے کے لیے مربوط پالیسیاں اپنانے پر ہے اس لیے مینوفیکچرنگ اور ایس ایم ای سیکٹرز پر توجہ دی جانی چاہیے جس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے اگرچہ اس سلسلہ میں دوست ممالک سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ضروری ہے لیکن اس میں اکثر طویل فزیبلٹی اسٹڈیز کی وجہ سے تاخیر ہوجاتی ہے اس وقت حکومت کو ان سرمایہ کاری پر توجہ دینی چاہیے جو مختصر مدت میں حاصل کی جا سکتی ہیں چاہے وہ مقامی ہوں یا غیر ملکی اور انہیں ایس ایم ایز جیسے پیداواری شعبوں میں منتقل کرنا چاہیے آج کا دور آئی ٹی کا دور ہے اور اس حوالہ سے ہماری حکومتوں کی عدم دلچسپی سے ہمارا یہ شعبہ بھی ختم ہو رہا ہے اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ کی سست ترین سپیڈ نے پوری کردی ہے پاکستان میں انٹرنیٹ کی جاری رکاوٹیں کال سینٹر کی صنعت کو بھی شدید متاثر کر رہی ہیں جس سے انہیں مالی نقصان ہو رہا ہے ملک غیر مستحکم انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا شکار ہے انٹرنیٹ سے منسلک کاروبار کرنے والے سروس کے معیار کو برقرار رکھنے اور صارفین کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس وقت کال سینٹر والے بھی اسی سست انٹر نیٹ کا شکار ہیں جہاں سیکڑوں بچے اور بچیاں روزگار کمار ہے ہیں جہاں انٹرنیٹ میں بار بار رکاوٹوں کے نتیجے میں کال کا معیار خراب ہوتا ہے اور کنکشن ختم ہو جاتے ہیں جس سے کال سینٹرز کے لیے سروس لیول ایگریمنٹس کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے یہ صورتحال محدود بینڈوتھ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے جو متعدد کالوں کو منظم کرنے یا جدید سافٹ ویئر ٹولز کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت کو روکتی ہے ویڈیو کانفرنسنگ اور وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول کالز خاص طور پر کمزور ہیں جو مواصلات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں جبکہ مخصوص انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں پر انحصار ایک اجارہ دارانہ ماحول پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور سروس کے معیار میں کمی ہوتی ہے یہ محدود مقابلہ ان کاروباروں کے لیے توسیع پذیری کو محدود کرتا ہے جو آپریشنز کو بڑھانا چاہتے ہیں موجودہ انٹرنیٹ انفرا سٹرکچر میں بہت سی خامیاں اور رکاوٹیں ہیں جو جدید ٹیکنالوجی جیسے کلاوڈ کمپیوٹنگ یا مصنوعی ذہانت کے انضمام کو اپنانے میں چیلنج ہیں اب آتے ہیں گوادر پورٹ کی طرف جہاں اب ترقیاتی کام اپنے عروج پر ہیں ائر پورٹ مکمل ہو چکا ہے گزشتہ روز باقاعدہ کام شروع کر دیا چین کی جانب سے مہیا کئے گئے 230ملین ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ مکمل ہوا گوادر ایئرپورٹ اب پاکستان کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوگا اگر یہ ایئرپورٹ کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے تو بلوچستان اور پاکستان کی معیشت بہت زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن جو لوگ اس وقت پاکستان سے دشمنی پر اترے ہوئے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں آج انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ قتل و غارت کرکے نہ صرف بلوچستان کے عوام کے خلاف جارہے ہیں بلکہ یہ پاکستان کے ساتھ صریحا دشمنی ہے چین جیسا دوست ملک جس نے اپنے وسائل سے یہ ایئرپورٹ تحفے میں دیا ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے گوادر اس وقت ہمارے لیے اشد ضروری ہے کیونکہ کراچی کی بندرگاہیں پہلے ہی تنگ ہیں وہاں آمد و رفت کا بے تحاشہ بوجھ ہے ایسے میں گوادر پورٹ کے خلاف محاذ آرائی پاکستان دشمنی ہے اب بات کر لیتے ہیں سندھ میں طلبہ یونین پر پابندیوں کی اس سلسلہ میں سندھ اسمبلی نے طلبا یونین کی بحالی کیلئے جماعت اسلامی کی قرارداد کثرت رائے سے مسترد کردی گئی ہے جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے طلبا یونین کی بحالی سے متعلق قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ طلبا کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئی آئین پاکستان کے مطابق کے فوری طلبا یونینز کے انتخابات منعقد کروائے جائیں قرارداد میں کہا گیا کہ 11فروری 2022ء کو سندھ اسمبلی نے سندھ اسٹوڈنٹس یونین ایکٹ منظور کیا تھا جس کے مطابق تمام تعلیمی اداروں کو دو ماہ میں قواعد و ضوابط مرتب کرکے ہر سال طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد کرنا تھا ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سندھ بھر میں طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد نہ ہونا اور طلبہ کو آئین کے آرٹیکل 17کے مطابق یونین سازی کے بنیادی حق سے محروم رکھنا افسوسناک ہے 24اکتوبر 2024ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں ملک بھر کی جامعات میں طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کا بھی حکم جاری کیا ہے طلبہ کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے آئین پاکستان کے مطابق فوری طلبہ یونین کے انتخابات کرائے جائیں پیپلز پارٹی کے ضیا لنجار نے کہا کہ طلبا یونیز پر کام ہو رہا ہے پیپلز پارٹی کا بھی اپنا موقف ہے طلبا یونیز ہمارے منشور میں بھی موجود ہے اور سندھ حکومت نے طلبا یونینز سے پابندیاں ہٹا دی ہیں اس لیے میرے حساب سے اس قرارداد کی ضرورت نہیں ہے جبکہ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ طلبہ یونین کے تین سال سے انتخابات نہیں ہو رہے طلبہ یونین پر پابندی کے بعد تشدد کے واقعات ہوتے ہیں ہم چاہتے ہیں ایسے طلبہ لیڈر آئیں جو سیاسی اقدار سے واقف ہوں پی پی جمہوریت کی چیمپئن بنتی ہے تین سال میں وہ طلبہ یونین کے انتخابات میں ناکام ہوئی جو قرارداد لائی جاتی ہے اس کو بلڈوز کیا جاتا ہے ایم کیو ایم پاکستان کے رکن انجینئر محمد عثمان کا بھی یہی کہنا تھا کہ طلبا یونین کے انتخابات فوری کروائے جائیں طلبا کو حق ہے کہ وہ نمائندے منتخب کریں چاہے اس کا تعلق کسی بھی تنظیم سے ہو ناظم اسلامی جمعیت طلبہ کراچی آبش صدیقی کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی سے قرارداد کا مسترد ہونا قابل مذمت ہے پیپلز پارٹی جواب دے کہ اپنے ہی چیئرمین کے فیصلے کے خلاف کیسے جارہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button