Column

جنگ بندی یا منصوبہ بندی

تحریر : ندیم اختر ندیم
کتنے سارے موضوعات آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں جس موضوع پر نظر پڑتی ہے ہاتھ قلم پکڑتا ہے اور چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر لکھوں لیکن ہر موضوع کو لکھتے ہوئے کچھ منظر آنکھوں کے سامنے کراہتے نظر آتے ہیں۔ ہاتھ رک جاتا ہے سوچ زخمی اور روح گھائل ہے ہر موضوع اس موضوع کے سامنے ہیچ دکھائی دیتا ہے میں لکھنا ہوں لکھتے ہوئے قلم کی رفتار بوجھل لگتی ہے اور سیاہی کا رنگ بھی سرخ ہوتا نظر آتا ہے میں اس موضوع پر پچھلے ڈیڑھ سال میں بارہا لکھ چکا ہوں لیکن ہر بار میرے تخیل کی تشتگی بڑھتی ہے میں جتنا لکھتا ہوں وہ ناکافی پاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ابھی مجھے اس پر بہت لکھنا ہے ’’ فلسطین‘‘ پر جو ہر روز قیامت گزری غزہ کی گلیوں میں روزانہ کی بنیادوں پر جو کربلائی منظر دیکھنے کو ملے یہ اس صدی نہیں بلکہ صدیوں کے بعد ہونے والے دنیا کے بڑے سانحات میں شامل ہیں ’ بچے‘ جن کے جسم خون سے لت پت ہیں جسم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ چیختی چلاتی فریاد کرتی تڑپتی ہوئی مائیں ہیں جنکے دل چھلنی ہیں جو سینہ نوچتی ہیں آنسوں میں نہاتے ہوئے باپ جن کے جگر گوشوں پر یہودیوں کے گولہ بارود برسا دئیے گئے یہودیوں کی لگائی آگ میں جھلسے ہوئے جسم دنیا کی بے حسی کا نوحہ کہتے ہیں دنیا نے ڈیڑھ سال سے مسلسل دیکھ رہی ہے کہ لمحہ لمحہ یہودیوں نے مسلمانوں پر کیسے کیسے ستم ایجاد کیے اور کیسے کیسے ظلم ڈھائے دنیا کسی قانون قاعدے اور ضابطے کی پابند ہے انسان معاشرے میں کسی اخلاقی قانونی تہذیبی کسی روایتی پہلوں کا پابند ہے لیکن اسرائیلیوں نے دنیا کے کسی قانون ضابطے قاعدے کو نہیں مانا کسی اخلاقی پہلو کو نہیں دیکھا اور مسلمانوں کو تہس نہس کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یہودیوں نے جنگلی کتوں اور بھیڑیوں کے اصول کو اپنایا جنگل میں جب معصوم جانور جھرمٹ اور جھنڈ کی شکل میں ہوتے ہیں تو خونخوار جنگلی کتے یا بھیڑیے پہلے جانوروں کو جھرمٹوں سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جانوروں کا غول منتشر ہو جائے اور جب وہ غول منتشر ہو جاتا ہے وہ معصوم جانور الگ ہو جاتے ہیں تو جنگلی کتے اور بھیڑیے ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں تو ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں جیسے کافروں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے بہت محنت کی کبھی خوف کبھی لالچ اور کبھی کسی دوسرے طریقے سے مسلمانوں کے اتحاد کو توڑا گیا اور مسلمانوں کے اتحاد کو تقسیم کر کے مسلمانوں پر یہودی حملہ آور ہوئے یہودی غزہ کو کھنڈر بنا کر لبنان یمن مصر سے شام تک پہنچے اور شام سے آگے وہ ایران میں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور ایران کے بعد یہودیوں کا ہدف کیا ہے یہ سبھی جانتے ہیں مسلمان اپنا شاندار ماضی رکھتے ہیں مسلمان اپنی اخلاقی پہچان رکھتے ہیں لیکن شاید مسلمانوں میں ایمان کے جذبوں کی وہ رمق باقی نہ رہی جن جذبوں سے مسلمانوں نے آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کی یہودی یہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی طور شکست نہیں دی جا سکتی یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے مسلمانوں کو تقسیم کر کے ان پر یلغار کر دی آج اس حقیقت کو ماننے میں کیا ندامت ہے کہ مسلمان اپنی عالی شان روایات رکھتے تھے لیکن اب کافروں نے مسلمانوں کی تاریخ کو بدل ڈالا ہے دنیا کے مسلمان ڈیڑھ سال مذمتوں سے آگے نہ بڑھے اور کافر مسلمانوں کے گریبانوں تک پہنچے غزہ کو تہہ و بالا کر دیا کیا مساجد چرچ ہسپتال تعلیمی ادارے پناہ گاہیں ہجرت کرتے لوگ امدادی کھانے کی تلاش میں آئے ہوئے کئی کئی روز کے بھوکے پیاسے شہریوں پر گولہ و بارود برسا دیا گیا یہودیوں نے ہر اصول قانون قاعدے کو پامال کرکے مسلمانوں کو آلودہ خاک کیا دنیا میں طاقت نے انصاف اور قانون کا روپ دھار لیا ہے انصاف اور قانون کو طاقت سے منسوب کر دیا گیا ہے کہ طاقتور قانون اور انصاف کو اپنے طریقے سے بیان کرے گا طاقتور کی بات کو قانون اور طاقتور کے فیصلے کو انصاف سمجھا جائے گا طاقتوروں کی جنبش ابرو پر ہر طرح کے فیصلے ہونگے اگرچہ دنیا کے طاقتور ممالک نے مل کر مزاحمتی تنظیموں پر دنیا کا جدید ترین اسلحہ آزمایا لیکن وہ لبنان ہو کے فلسطین دنیا کے طاقتور ممالک ان مزاحمتی تنظیموں پر ہر ہتھیار استعمال کرنے کے بعد بھی ان کے حوصلوں کو شکست نہ دے سکے اسرائیل میں نیتن یاہو کو کہا جا رہا ہے کہ اس نے حماس کے آگے سرنگوں کر دیا ہے یہ بات درست ہے کہ امریکہ اسرائیل برطانیہ یا دوسرے ممالک مل کر بھی حماس کے حوصلوں کو مات نہیں کر سکے لیکن آپ دیکھئے کہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اسرائیلی فضائیہ فلسطین پر مسلسل بمباری جاری رکھی درست ہے کہ یہودی قابل بھروسہ نہیں۔
قرآن کریم میں ہے
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا‘‘۔
یہ جنگ بندی ہمارے لئے اطمینان کی بات ہے لیکن ہمارے دل پر فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے جو گھائو لگے ہیں کبھی مندمل نہیں ہوں گے اور اسرائیل کی طرف سے یہ جنگ بندی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی ہے کہ اسرائیل تو روز اول سے فلسطینیوں کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور پھر سے کب وہ درندگی پر اتر آئے کیا خبر لیکن مسلمانوں کو اپنی لٹی ہوئی ساکھ اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے میں وقت درکار ہوگا ہمیں اپنی کمزوریوں کی نشان دہی کرکے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا متحد ہونا ہوگا کہ بکھرنے کا خوف ناک انجام تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button