ہوائیں

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
طاقت کے تیور اپنا اظہار بخوبی کرتے ہیں اور دیکھنے والوں کو نظر آتا ہے کہ طاقتور کی طاقت کس قدر ہے، کتنا احاطہ کرتی ہے اور کون کون اس کے اثر میں آتا ہے۔ طاقت بالخصوص جب اقتدار کے ساتھ ہوتو اس پر ہوتا عمل درآمد ہی اس کے حاصل کردہ کا اثر و رسوخ واضح کرتا ہے بدقسمتی سے امریکی سابق صدر جو بائیڈن کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایک طاقتور عہدہ رکھنے کے باوجود، جو بائیڈن اس عہدے سے ملنے والی طاقت کو نہ بروقت استعمال کرنے کی اہلیت رکھتے تھے اور نہ ہی اس طاقت کو منوانے کا خاصیت ان میں موجود تھی ورنہ آج کی دنیا میں جب ساری دنیا امریکی اثر و رسوخ کے تابع دکھائی دیتی ہے، جو بائیڈن مشرق وسطی میں اسرائیلی جارحیت کو کم و بیش 11مذاکراتی ادوار میں رکوانے میں بری طرح ناکام رہے۔ اس کے برعکس معاملات ہر مذاکراتی دور کے بعد، مزید پیچیدہ اور انسانیت سوز ہوتے رہے لیکن نہ جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ اس قتل انسانیت کو رکوانے میں کامیاب نہ ہو سکی، بلکہ خدشات یہاں تک بڑھ گئے کہ مشرق وسطیٰ میں دہکتی یہ آگ، دیگر ریاستوں کو بھی اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے لے گی، تاہم دیگر ریاستوں کی جانب سے عقل مندی کا مظاہرہ کیا گیا اور آگ کے ان شعلوں کو مخصوص حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف نو منتخب صدر کے انتخابات جیتتے ہی، ان کی طرف سے واضح اعلان نے، اسرائیل اور نیتن یاہو کو پسپائی کی جانب جاتے دیکھا گیا کہ انہیں بخوبی علم تھا کہ ٹرمپ کے طرف سے دی گئی وارننگ کا مطلب کیا ہے؟ ایک طاقتور ریاست کے طاقتور شخص کی جانب سے کی گئی توقعات پر پورا نہ اترنے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ امریکی انسانیت پسند پالیسی کا احترام نہ کرنے کا کیا نقصان اور کیا نتائج ہو سکتے ہیں، ان کے متعلق اسرائیل اور اس کی قیادت کو بخوبی اندازہ اور علم ہے لہذا ٹرمپ کے بطور صدر حلف لینے سے قبل ہی مشرق وسطی میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ اس جنگ بندی میں سب سے اہم ترین بات، جنگ بندی کا وہ معاہدہ ہے کہ جس پر بائیڈن انتظامیہ طویل مذاکرات کرنے کے باوجود بھی اسرائیل کو اس پر راضی کرنے میں ناکام رہی بلکہ کئی ایک شقوں کو اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر تبدیل کیا گیا اور فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن شنید ہے کہ موجودہ جنگ بندی معاہدے میں حماس کی کئی ایک شرائط کو تسلیم کیا گیا ہے اور اسرائیل نے بھی اس پر سر تسلیم خم کیا ہے۔ بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیلی قیادت کو یہ گمان تھا کہ سابق دور حکومت میں جیسے تیسے وقت گزارا جائے تاآنکہ نئے انتخابات کا نتیجہ سامنے نہیں آتا اور بالفرض اگر جو بائیڈن انتخابات جیت جاتے تو اسرائیل اپنی ڈگر پر قائم رہتا اور فلسطینیوں کا خون ناحق اسی طرح بہتا رہتا بصورت دیگر ٹرمپ کے آتے ہی، سر جھکا لیا جاتا۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کا اس طرح اسرائیل اور فلسطین کی اس جنگ میں خواہشات یا توقعات کو کسی بھی صورت اسرائیل کے اندرونی معاملات میں مداخلت کہا یا سمجھا جا سکتا ہے؟ یا اسے امریکی پالیسی کے مطابق دنیا بھر میں
انسانی حقوق پر نظر رکھنا کہا جائے گا، جو بطور عالمی طاقت کہیں یا دنیا کا چودھری کہیں یا اسے عالمی تھانیدار کہیں، اس کی ذمہ داری ہے یا جس کا اس نے بیڑا اٹھا رکھا ہے اور اس کا پرچار کرتا ہے؟
دوسری طرف پاکستان کے اندرونی حالات ہیں جو مسلسل سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے، جس کے پس پردہ حقائق سے سب واقف ہیں کہ ہمارا مزاج ہی درحقیقت اس کی بڑی وجہ دکھائی دیتا ہے وگرنہ ایسی کوئی بات ہے نہیں کہ ان معاملات کو حل نہ کیا جا سکیں تاہم اس حوالے سے معتوب سابق وزیراعظم کی جانب سے بارہا اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ رجیم چینج میں بیرونی مداخلت کارفرما تھی جس کی آبیاری و سہولت کاری بہرطور پاکستانی حکام نے ہی کی تھی۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ ہے، اس کو سمجھنے کے لئے کسی بڑی سائنس کی ضرورت اب نہیں رہی کہ عمران خان کے حامی اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتے ہیں کہ پاکستان کا ماضی، ان کے یقین کرنے کی ٹھوس وجہ ہے، کہ ہر وہ پاکستانی حکمران، جو امریکی خواہشات کے برعکس گیا، اس کا انجام پھانسی کا پھندا ہوا، سی ون تھرٹی کا کریش، لیاقت باغ میں گولی ؍ بم دھماکہ، یا جیل کی کال کوٹھری مقدر رہی۔ اس وقت بھی پاکستان اسی صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے جبکہ معتوب سابق وزیراعظم کی جانب سے آج بھی موقف وہی ہے کہ ان کے خلاف سازش، بائیڈن انتظامیہ اور پاکستانی مختار کل فرد واحد کی طرف سے رچائی گئی، کہ وہ امریکی خواہشات کے سامنے سرنگوں ہونے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بہرکیف آج وہ وقت گزر چکا ہے اور نئی انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکی ہے، جو بڑی شدو مد کے ساتھ دنیا میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نہ صرف آواز بلند کر رہی ہے بلکہ
ظالموں کے ہاتھ روک رہی ہے۔ امریکی انتخابی مہم کے دوران، پاکستانی امریکن شہریوں کی بڑی تعداد نے، پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر، ریاست پاکستان اور پاکستانیوں کے حق میں اقدامات کرنے والے امیدوار کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا اور ٹرمپ اپنے سابقہ دور میں عمران خان سے ملاقات کر چکا تھا اور اسے اپنا دوست بھی تسلیم کرتا ہے، لہذا پاکستانیوں کی اکثریت کو اس نے پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر، ان کا ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا، اس لئے پاکستانیوں کی اکثریت نے اسے ووٹ دیا۔ جبکہ دوسری طرف یہی پاکستانی، بائیڈن انتظامیہ کو پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کرتے رہے لیکن بائیڈن انتظامیہ نے اس پر کوئی کان نہ دھرے اور نہ ہی پاکستانی ووٹرز کو اس قابل سمجھا کہ ان کی شکایات کا ازالہ کریں، یوں پاکستانیوں میں بائیڈن انتظامیہ کا جو تاثر بنا، اس نے انہیں متنفر کیا، تاہم یہاں ایک دوسری حقیقت کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستانی تو ممکن ہے صرف پاکستانی بن کر ہی سوچتے ہوں لیکن دوسری قوموں کی عمران خان سے محبت کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور عین ممکن ہے کہ بھارت، مشرق وسطیٰ اور دیگر کرکٹ کھیلنے والی قوموں کے ووٹرز نے بھی ٹرمپ کو اس وجہ سے ووٹ دیا ہو۔
پاکستانی امریکنوں کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ سے بات چیت ہو چکی ہے اور ٹرمپ جونیئر کی جانب سے بھی یہ اقرار کیا گیا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ کو عمران خان کے حوالے سے سخت پیغام دیا جا چکا ہے، جس کے نتائج چند دنوں میں سامنے آ جائیں گے۔ اس قسم کی خبروں پر ن لیگ کی جانب سے بڑی شدومد کے ساتھ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کل تک عمران خان رجیم چینج کو بیرونی مداخلت کا نام دے رہے تھے لہذا اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے، اپنے موقف کا اعادہ کریں کہ وہ بیرونی مداخلت کے خلاف ہیں وگرنہ اس کو میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو، ہی کہا جائیگا، جو منافقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ن لیگ کے اس موقف سے کلی اتفاق ہے لیکن کیا کریں کہ ن لیگ میں یہ خصوصیت بہرطور موجود ہے کہ حقائق کو توڑ کر پیش کرنے میں ان کا ثانی نہیں، حالانکہ عمران خان اس پر واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ انہیں ٹرمپ کی مدد کی ضرورت نہیں اور وہ جیل سے باہر عدالتوں کے ذریعہ ہی آئیں گے۔ البتہ جس طرح کی عدالتی کارروائی عمران خان، تحریک انصاف اور کارکنان کے خلاف ہو رہی ہے، اسے کسی بھی طور منصفانہ نہیں کہا جا سکتا کہ جس طرح قوانین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، جس طرح بنیادی انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، یہ صرف اور صرف پاکستان جیسی ریاست میں ہی ممکن ہے۔ البتہ امریکہ اگر اپنی عالمی حیثیت میں ان انسانی حقوق کی پامالی پر اثر انداز ہوتا ہے اور پاکستانی ’’ اصل حکمرانوں‘‘ کو انسانی حقوق کا صرف خیال کرنے کے لئے کہتا ہے، حکم نہیں دیتا، تو پاکستانی حکمرانوں کے لئے، اس سے صرف نظر کرنا انتہائی مشکل ہو جائیگا اور انہیں اس تنبیہ کو ہی ’’ حکم‘‘ سمجھتے ہوئے، تعمیل کرنا پڑے گی۔ اس تھوڑے کو قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس سے زیادہ لکھنے کی تاب میں پر جلنے کا شدید اندیشہ رہتا ہے، تاہم مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی طاقت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے، نیتن یاہو کو گھٹنے ٹکواتے ہوئے کروائی ہے، جس کا جرم ’’ انسانی حقوق کی پامالی‘‘ میں ہی آتا ہے، اس سے یہ اخذ کرنا کہ ہوائیں اپنا رخ بدل چکی ہیں اور جب ہوائیں اپنا رخ بدل لیں تو لائحہ عمل بدلنے میں ہی بہتری ہوتی ہے کہ عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے ۔