Column

جاوید میاں داد دی لیجنڈ آف کرکٹ

تحریر : چوہدری راحیل جہانگیر
1957 ء میں کراچی کی گلیوں میں ایک بچہ کرکٹ کھیلتا تھا جو کلب میچوں میں صرف فیلڈنگ کیلئے رکھا جاتا تھا، یہ اس کی کرکٹ کے کھیل سے ناقابل بیان محبت تھی کہ فیلڈنگ کا موقع ملنے کو بھی غنیمت سمجھتا تھا۔ والد میاں داد نور محمد مسلم جمخانہ کراچی کے سیکرٹری اور کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیدار تھے، جس کی وجہ سے مسلم جمخانہ میں شامل کرلیا گیا۔ اس وقت مسلم جمخانہ میں حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی کھیلنے آتے تھے۔ ایک بار اس بچے کی اچھی بیٹنگ دیکھ کر مشتاق محمد نے اس کو اپنا بیٹ انعام میں دیا اور کہا کہ یہ بچہ ایک دن پاکستان کی نمائندگی کرے گا۔ وہ بچہ کوئی اور نہیں پاکستان کا سابق کپتان اور عظیم بلے باز جاوید میاں داد تھا۔ میاں داد کا کرکٹ کیریئر تنازعات سے بھر پور ہے، جس میں اس کے خلاف حسد، ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی گھٹیا سیاست کھیلی گئی یہاں تک کہ اس فائٹر اور محب وطن کھلاڑی کو توڑنے کیلئے کئی حربے آزمائے گئے لیکن محنت اور اللہ کی ذات پر اعتماد نے اسے ناقابل تسخیر بنا دیا۔
جاوید پہلے سندھ انڈر 19کی طرف سے کھیلے اور پھر پاکستان انڈر 19میں سلیکٹ ہوگئے. ٹیم کے ساتھ سری لنکا اور انگلینڈ کا دورہ کیا۔ نومبر 1974ء میں نیشنل انڈر 19کا فائنل سندھ اور پنجاب کی ٹیموں کے درمیان تھا جس میں جاوید نے پہلی اننگ میں
135اور دوسری اننگ میں 225رنز ناٹ آئوٹ بنائے۔ پاکستان بورڈ کے چیئرمین عبد الحفیظ کاردار یہ میچ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے جاوید کو صدی کی بہترین دریافت قرار دیا۔1975ء کی ورلڈ کپ ٹیم میں جاوید کو شامل کیا گیا جہاں انہوں نے اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ کھیلا اور انگلش کائونٹی سے معاہدہ بھی کرلیا۔ اپریل 1975ء میں انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنی واحد ٹرپل سنچری بنائی، جس پر ان کو پاکستان ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہونے کا موقع ملا۔
1976 ء میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورہ پر آئی۔ جاوید نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ لاہور میں کھیلا اور پہلے ہی ٹیسٹ میں 163رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ جاوید نے کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں ڈبل سنچری بنا کر سب سے کم عمر ڈبل سنچری میکر کا اعزاز حاصل کیا۔ 1978ء کی پاک بھارت کرکٹ سیریز ایک یادگار سیریز رہی ۔ جاوید نے دو سنچریاں بنائیں اور پاکستان یہ سیریز دو صفر سے جیت گیا۔ 1979ء میں انڈیا کے دورے میں شکست کے بعد آصف اقبال نے کپتانی چھوڑ دی، جس پر بورڈ نے جاوید کو صرف 22سال کی عمر میں پاکستان ٹیم کا کپتان بنا دیا۔ جاوید نے ہوم سیریز میں آسٹریلیا کی ٹیم کو شکست دی۔ آسٹریلیا کا جوابی دورہ بہت سنسنی خیز رہا۔ پاکستان سیریز ہار گیا۔ ڈینس للی اور جاوید کی شہرہ آفاق لڑائی ہوئی۔ اسی دورہ میں پاکستان کے دس کھلاڑیوں، عمران خان، ظہیر عباس، ماجد خان، سرفراز نواز، وسیم باری، محسن خان، سکندر بخت، وسیم راجہ اور اقبال قاسم نے جاوید کی کپتانی میں کھیلنے سے انکار کر دیا۔ اس بغاوت کے نتیجہ میں عمران خاں کو سری لنکا کے خلاف کپتان بنا دیا گیا۔ اسی بغاوت کے بعد عمران خان اور جاوید میانداد کے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی، جو بعد میں مزید گہری ہوتی گئی۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب 1982ء میں انڈیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ حیدر آباد ٹیسٹ میچ میں مدثر نذر اور جاوید نے رنزوں کے انبار لگا دئیے۔ جاوید جب 280رنز پر کھیل رہا تھا تو اچانک عمران خان نے اننگز ڈکلیئر کردی۔ جاوید کو بہت صدمہ پہنچا کہ کپتان نے ٹیم میٹنگ میں ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ سنیل گواسکر نے جاوید سے کہا کہ اگر میں کپتان ہوتا تو کبھی اننگز ڈکلیئر نہ کرتا۔ پاکستان دو ٹیسٹ میچ جیت کر پہلے ہی سیریز جیت چکا تھا ۔ عمران خان کی اس حرکت کے بعد ان دونوں کے درمیان بول چال تک بند ہوگئی۔
شارجہ کا آسٹریلیشیا کپ کون بھول سکتا ہے، اس کپ سے پہلے پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ میں کوئی کپ یا ٹرافی نہیں جیتا تھا۔ بھارت کے خلاف فائنل میچ میں جاوید نے نہ صرف سنچری بنائی بلکہ آخری بال پر چھکا لگا کر پاکستان کو چمپئن بنا دیا۔ 1987ء کا ورلڈ کپ پاکستان اور انڈیا کی میزبانی میں ہو رہا تھا جو ساری قوم کو سوگوار کر گیا۔ پورے ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم اچھا پرفارم کر رہی تھی، آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل پاکستان 18رنز سے ہار گیا۔ جاوید نے 70رنز کی عمدہ اننگز کھیلی لیکن جیت حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد پانچ سال تک پاکستان کو انتظار کرنا۔ 1992ء کا ورلڈ کپ پاکستان نے جاوید کی بیٹنگ کی وجہ سے جیتا۔ جاوید نے ورلڈ کپ میں پانچ نصف سنچریوں کی مدد سے 437رنز بنائے۔ سیمی فائنل اور فائنل میں نصف سنچریاں سکور کیں۔ ورلڈ کپ کے بعد عمران خان کی عدم موجودگی میں جاوید کو دوبارہ کپتان بنا دیا گیا۔ جاوید کی کپتانی میں پہلے پاکستان نے نیوی لینڈ اور انگلینڈ کو شکست دی۔ ان فتوحات کے باوجود وطن واپسی پر کھلاڑیوں نے ایک بار پھر بغاوت کردی کہ ہم جاوید کی کپتانی میں نہیں کھیلنا چاہتے۔ بظاہر اس وقت بغاوت کے لیے وسیم اکرم اور جونیئر کھلاڑیوں کو استعمال کیا گیا، مگر درپردہ اس کے پیچھے عمران خان کا ہاتھ تھا۔ وسیم اکرم کو ٹیسٹ ٹیم میں لانے کا سہرا جاوید میاں داد کے سر جاتا ہے، لیکن وسیم اکرم کی احسان فراموشی نے اس کا دل توڑ کے رکھ دیا۔ اسی دوران جاوید نے 100ٹیسٹ میچ کھیلنے کا سنگِ میل عبور کیا اور اپنے سو ویں ٹیسٹ میں بھی سنچری سکور کی۔ 1993ء میں زمبابوے کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو بورڈ انتظامیہ فیصلہ کر چکی تھی کہ میاں داد کو ٹیم سے نکالنا ہے۔ پہلے اس کی فٹنس کو جواز بنا کر اسے بورڈ کے دفتر کے باہر گھنٹوں بھٹا کر ذلیل کیا گیا۔ جب فٹنس ٹیسٹ پاس کرلیا تو پھر بورڈ کے عہدیداروں نے یہ ضد کی کہ وہ نیٹ میں جاوید کی بیٹنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب نیٹ میں یہ حالت تھی کہ وسیم اکرم، وقار یونس اور عاقب جاوید بائولنگ کر رہے تھے اور ہر بال بائونسر کرا رہے تھے، جس پر غصے میں آکر جاوید نے اپنا ہیلمٹ اتار کر پھینک دیا اور کہا کہ اب مارو میرے سر پر بال۔ بہرحال انہی حالات میں انہوں نے 1993ء میں اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلا۔ جاوید دنیائے کرکٹ کا واحد کھلاڑی ہے جس نے چھ ورلڈ کپ مقابلوں میں شرکت کی۔

جواب دیں

Back to top button