دریا
تحریر : علیشبا بگٹی
دریا ایک قدرتی پانی کا بہائو ہے۔ جو زمین کی سطح پر مختلف علاقوں سے گزرتا ہے اور اکثر کسی دوسرے دریا یا سمندر میں جا کر شامل ہوتا ہے۔ دریاں کا پانی بارش، گلیشیئرز کے پگھلنے یا زیر زمین پانی کے چشموں سے آتا ہے۔ دریائوں کو انسانی زندگی کے لیے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ پانی، زراعت، توانائی اور تجارت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
شعر ہے کہ
رات کے دریا کا کنارہ بھی کبھی آئے گا
وقت کا کیا ہے ہمارا بھی کبھی آئے گا
ایک لومڑی نے دریا کے دوسری کنارے کھڑے اونٹ سے پوچھا، پانی کہاں تک پہنچتا ہے۔۔؟؟؟ اونٹ نے جواب دیا، گھٹنے تک۔۔ لومڑی نے پانی میں چھلانگ لگائی، ڈوبنے لگی، کبھی غوطے کھاتی، کبھی سر باہر نکالتی، بڑی مشکل سے دریا میں ایک چٹان کے ساتھ چپک گئی، آہستہ آہستہ چٹان کے اوپر آگئی۔ سانس بحال ہوتے ہی غصے سے اونٹ سے کہا، تم نے کیوں کہا کہ پانی گھٹنے تک آتا ہے؟ اونٹ نے جواب دیا۔ ہاں پانی میرے گھٹنے تک ہی آتا ہے۔ جب آپ کسی سے مشورہ کرتے ہیں تو عموماً وہ آپ کو اپنے تجربات کی روشنی میں جواب دیتا ہے۔ ممکن ہے جو باتیں اس کے لئے فائدہ مند ہوں، وہ آپ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں۔
شاعر کہتا ہے کہ
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملے دریا نہیں رہتا
کسی دیوانے نے محبوب کو دریا سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تم میرے لیے بہتے دریا کی مانند ہو۔ جو ہر شے کو سیراب کرتا ہے۔ اور میں تمہارے لیے اک موج کی مانند ہوں۔ جو دریا سے الگ ہوجائے تو تشنگی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
جگر مراد آبادی کا شعر ہے کہ
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
کیا آپ نے کبھی دریائوں کی زندگی پر غور کیا ؟ دریا کبھی واپس نہیں بہتے، ہمیشہ آگے ہی آگے کی طرف بہتے جاتے ہیں۔ اس سے یہ سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان ماضی کو بھول کر حال کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے مستقبل اور منزل پر نظر رکھے۔
دریا اپنا رستہ خود بناتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے آ جائے تو آرام سے اپنا رخ موڑ کر نئی راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے۔ کہ مشکلوں اور رکاوٹوں سے لڑنا، بحث کرنا اور ضد کرنا دراصل وقت ضائع کرنا ہے۔
انسان گیلے ہوئے بغیر دریا پار نہیں کر سکتا، اسی طرح آنسوئوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوگی۔ کشتی کے ذریعے ہی دریا کے کنارے جایا جا سکتا ہے۔ ہمت کی نائو کے سہارے ہی زندگی کے دریا کو عبور کیا جا سکتا ہے۔
دریاں کو دھکا نہیں لگانا پڑتا، یہ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔ اسی لیے انسان کو چاہیے، کہ کسی کے سہارے کے بغیر اپنا کام خود کرے۔ اور اپنی محنت سے آگے بڑھے۔
جہاں سے دریا زیادہ گہرا ہوتا ہے، وہاں خاموشی اور سکوت بھی زیادہ ہوتا ہے۔ علم والے اور گہرے لوگ بھی پرسکون ہوتے ہیں۔
پتھر پھینکنے والوں سے الجھے بغیر دریا بہتے چلے جاتے ہیں۔ روڑے اٹکانے والوں اور بلاوجہ تنقید کرنے والوں کی پروا کیے بغیر انسان بھی اپنی زندگی کے سفر کو رواں دواں رکھے۔
ایک بڑا دریا چھوٹی ندیوں، نالوں اور چشموں کو اپنے ساتھ ملنے سے کبھی منع نہیں کرتا۔ ایک اچھا انسان بھی اپنا ظرف بلند اور نگاہ سربلند کر کے سب کو ساتھ لے کر چلتا رہتا ہے۔