حقیقی آزادی
تحریر : محمد مبشر انوار (ریا ض)
پاکستانی افق سیاست پر، غیر سیاسی قوتوں کے کردار کے حوالے سے ایک رسہ کشی ہے جو کم و بیش آزادی کے ساتھ ہی شروع ہو چکی ہے اور ہنوز جاری ہے۔ اس رسہ کشی میں کس کا کتنا قصور ہے اور کو کتنا سہولت کار ہے،اس کا فیصلہ اس لئے نہیں ہو پاتا کہ سیاسی وابستگی کے بعث ہر سیاسی جماعت کا رکن، ووٹر اور سپورٹر اپنی قیادت کے خلاف ایک لفظ سننے کے لئے تیار نہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، یہ سیاسی وابستگیاں مزید مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی کارکنان اپنی سیاسی قیادت سے کسی غلطی کی بازپرس کرنے کے قابل ہی نہیں رہ گئے کہ معاشرے میں ایسے ایسے خوشامد پسند اور چاپلوس در آئے ہیں کہ وہ ایسی کسی بھی صورتحال سے اپنے مفادات کشید کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاتے اور ایسے سیاسی کارکنان جو اپنی قیادت سے سوال جواب کرنے کی جرات رکھتے ہیں، انہیں قیادت سے دور کرنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی قطعی انکار نہیں کہ یہی وہ ابن الوقت سیاسی کارکن ہیں، جنہوں نے ماضی میں ،آشیانے بدلنے میں قطعا دیر نہیں لگائی اور جیسے ہی سیاسی جماعت پر زوال کے آثار نظر آئے، کچھ اپنے سیاسی فہم و ادراک سے تو کچھ اپنے آقائوں کے اشارہ ابرو سے فورا دوسری ڈال پر جا بیٹھے۔ یوں ملک میں سیاسی اقدار اور کلچر مضبوط تو کیا ہوتا، اس کا فروغ پانا بھی مشکل تر ہو چکا ہے اور غیر سیاسی قوتیں بآسانی امور حکومت اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں، مجال ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اتنی جرات رکھتی ہو کہ اس ظلم کے خلاف کھڑی ہو سکے۔ گو کہ ماضی میں ہر وہ سیاسی جماعت، جو مقتدرہ مخالف بیانیہ لے کر اٹھی، اسے بے پناہ عوامی حمایت نصیب ہوئی اور عوام نے اسے اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا، بھرپور مینڈیٹ سے نوازا مگر ایسے بھرپور مینڈیٹ والی سیاسی جماعت کی ضرورت نہ تو عالمی طاقتوں کو رہی اور نہ ہی مقامی مقتدرہ کو، لہذا ایسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ بن چکا اور حال ہی میں تاریخ لکھی بھی جارہی ہے۔ اس ضمن میں صرف ایک سیاسی جماعت اور اس کے مینڈیٹ کو استثنیٰ حاصل رہا ہے جو بہرصورت اقتدار کی مسند پر براجمان تو مقتدرہ کی حمایت سے ہوتی رہی ہے لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہمیشہ اس کی لڑائی بھی مقتدرہ کے ساتھ ہی رہی ہے اور سیاسی دانشور ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ اسی سیاسی جماعت کو اقتدار راس نہیں آتا اور یہ ازخود بم کو لات مارتی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی رہی ہی کہ جس کے بانی کا بیشتر وقت ایک آمر کے ساتھ حکومت میں رہا ہے لیکن ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے، بانی نے اپنی راہیں آمر سے جدا کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی، اپنا سیاسی منشور ترتیب دیا اور اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا، عوام نے جو محبتیں اس پر نچھاور کی، وہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بھی، اس کی دختر بے نظیر نے اس سیاسی جماعت کو ایک عرصہ تک جمہوری جدوجہد پر قائم رہیں لیکن بعد ازاں کارکنان پر سختیوں کو مد نظر رکھتی ہوئی، انہیں بھی سمجھوتے کرنا پڑے اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی کے مصداق ملکی سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت اور کنٹرول جاری رہا۔
سیاست کو غیر سیاسی قوتوں سے پاک کرنے کی خاطر نواز شریف کی خواہشات سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں لیکن ان کا طرز عمل ان کی خواہشات کے برعکس ہی رہا ہے اور شیند تو یہ بھی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد وطن واپسی پر، جب عمران خان زیر عتاب تھے، نواز شریف نے ان کو یہ پیغام بھجوایا کہ مل کر جدوجہد کرتے ہیں، جس کا انہیں مثبت جواب نہیں ملا۔ مثبت جواب نہ ملنے پر عمران خان پر سختیاں مزید بڑھی، ان پر مقدمات کی بھرمار ہوئی اور مقصد کے حصول میں تاخیر اس کا نتیجہ ہے کہ غیر سیاسی قوتیں کسی بھی صورت اپنا کنٹرول ملکی سیاست پر ختم نہیں کرنا چاہتیں اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہمیشہ تیار نظر آتی ہیں، خواہ کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ نواز شریف کو مثبت جواب نہ ملنے کی اہم وجہ جہاں ان کا طرز عمل رہا ہے وہیں ان فیصلہ کن لمحات میں کہ جب عمران خان اس مقصد کے حصول کے لئے بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہا ہے، شہیدوں میں نام لکھوانے کا موقع کیونکر فراہم کرے؟ گو کہ اس وقت عمران خان کی اس تحریک میں اس کے اپنے کارکنان کا کردار اتنا متاثر کن ہرگز نہیں کہ اسے مثالی یا پر عزم کہا جا سکے، اس کے باوجود عمران خان تن تنہا اس تحریک میں جان ڈال رہا ہے اور آخری لمحہ تک اس کے حصول میں کوشاں دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ پاکستان میں یہ دوسرا موقع ہے کہ عوام کسی رہنما کے لئے یوں سڑکوں پر نکلی ہوں، پہلی مرتبہ ایک آمر جنرل ضیاء کے دور آمریت میں عوام بھٹو کے لئے سڑکوں پر نکلے تھے، بھٹو کے شیدائیوں نے نہ صرف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھی بلکہ سرعام کوڑوں کی سزائیں تک بھگتی تھی، جہانگیر بدر جیسے جیالوں نے کال کوٹھریوں میں کوڑے کھاتے ہوئے بھٹو زندہ باد کے نعرے لگائے تھے لیکن عمران خان کے رفقاء نہ صرف مصلحت کار ہیں بلکہ خوفزدہ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ عوام آج بھی سڑکوں پر نکلنے کے لئے تیار ہے لیکن ان کی قیادت کرنے کے لئے کوئی نظر نہیں آتا لہذا سابقہ احتجاج میں عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی بذات خود احتجاج کی کال کرتی دکھائی دی، تاکہ احتجاج کو غیر منطقی انداز میں ختم نہ کیا جا سکے، جس کے جواب میں تحریک انصاف کی قیادت ان سے نالاں نظر آرہی ہے۔ عمران خان پر تنقید کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ تحریک انصاف کا بنیادی منشور ہی موروثیت کی نفی رہا ہے لہذا بشریٰ بی بی کا یوں احتجاج کی قیادت کرنا منشور کی خلاف ورزی ہے۔
یہ سیاسی قیادت جس طرح بروئے کار آ رہی ہے، اس میں کس امر کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، یہ قیادت اس کا جواب دینا پسند کرے گی؟ پس پردہ کس طرح روابط موجود ہیں اور کس طرح عوامی جذبوں کو پامال کیا جارہا ہی، کس طرح غیر سیاسی قوتوں کے پلان کو کامیاب کروایا جارہا ہے، کس طرح تحریک انصاف کے مقاصد سے غداری کی جارہی ہے، اس کا جواب موجودہ ناقد قیادت کے پاس ہے؟ آپ کی جدوجہد بار آور نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں اور کیوں عمران خان کے وارثین کو اس جدوجہد میں کودنا پڑ رہا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان کے نام پر ووٹ لینے کے بعد، تکالیف تو ساری عمران خان کے حصہ میں آئی ہیں اور بالائی آپ سمیٹ رہے ہیں، اور یہ بالائی تب تک میسر رہے گی، جب تک عمران خان اسیر ہے۔ تحریک انصاف کی صف دوم کی قیادت کایہ رویہ اور طرز عمل بعینہ گفتار کے غازیوں سے مختلف ہرگز نہیں اور اس روئیے اور طرز عمل سے نہ تو عمران خان کی جدوجہد کے بار آور ہونے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی عمران خان کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے، ایسی صورتحال میں جب تحریک انصاف کی قیادت اس طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہو تب عمران خان کے وارثین کب تک، کیسے اور کیونکر خاموش رہ سکتے ہیں؟ عمران خان کے ناقدین یقینی طور پر اس سوچ کو مدح سرائی کا نام دیں گے لیکن وہ نہ یہ سوچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ سمجھنے کے لئے کہ عمران خان کے لئے اپنی اسیری ختم کرنا لمحوں کا کام ہے لیکن وہ اپنی اسیری کو رہائی میں بدلنے کے لئے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے قطعی تیار نہیں وگرنہ اس کے لئے مشکل نہ ہوتا کہ وہ مقتدرہ کی پیشکش کا مثبت جواب دے کر اپنے لئے آسانیاں پیدا کر لیتا۔ اس کے لئے اسے کیا کرنا پڑتا، وہ مریم نواز کے شہرہ آفاق الفاظ میں آج بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ وہ راستہ ہمیں بھی آتا ہے لیکن اس کے لئے ۔۔۔۔۔۔، آج صورتحال سے واضح ہے کہ کس نے کون سا راستہ اختیار کیا ہے اور کون تاریخ کے صحیح طرف کھڑا ہے۔
یہاں ایک اور حقیقت واضح ہوتی ہے کہ عمران خان مخالفین اس پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ 2018ء میں عمران خان مقتدرہ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آیا تھا، آج کے حالات اس کی نفی کرتے ہیں بالخصوص شہباز شریف کا اپنا اعتراف کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل ہی وہ جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم کے ساتھ اپنی ممکنہ کابینہ کے متعلق تفصیلا گفتگو کر چکے تھے لیکن نوازشریف کی عدم منظوری کے باعث، بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور عمران خان کی واضح کامیابی کو ’’ لولی لنگڑی‘‘ حکومت میں تبدیل کر دیا گیا۔ جبکہ حالیہ انتخابات میں جو جھرلو پھیرا گیا ہے اور بعد ازاں جس طرح اپنی اس حرکت کو آئین و قانون کے دائرے میں لانے کی کوششوں مسلسل جاری ہیں، یہ اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ انتخابات میں کامیابی بہرطور تحریک انصاف کی تھی، جسے شکست میں تبدیل کیا گیا، جس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ عمران خان کو اقتدار میں آنے سے روکنا کہ کہیں وہ غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کو روک نہ سکے۔ ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کی یہ بھرپور کوشش ہوگی کہ کسی بھی طرح عمران خان کو توڑ لیا جائے بصورت دیگر اسے راستے سے ہٹا دیا جائے، جس کے متعلق بہت سی چہ میگوئیاں اس وقت سیاسی منظر نامہ پر سنی جارہی ہیں، تاہم مارنے والے سے بچانے والے کی ذات بہت بڑی ہے، تاکہ 1947ء میں حاصل کی گئی ’’ آزادی‘‘ کہیں واقعتا ’’ حقیقی آزادی‘‘ میں نہ بدل جائے۔
محمد مبشر انوار (ریاض)