جگائے گا کون؟
تحریر: سی ایم رضوان
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ایک پرامن جماعت پرامن طریقے سے اپنے لیڈر کی رہائی کے لئے نکلتی ہے، پر امن احتجاج کے شرکاء پر گولیاں برسانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ تقریر کے دوران وزیراعلیٰ کا مائیک بند ہوا تو انہوں نے کہا کہ ریڈ زون اور ڈی چوک کے ڈرامے نہ دکھائیں۔ ہم پر گولیاں بھی چلائی گئیں۔ جو ملے ہوئے ہیں وہ ہر جگہ، ہر قسم کی سازش کر رہے ہیں، ہم کرسیوں والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا اسلام آباد کے چوکوں پر مجھ پر فائر کیے گئے، بانی پی ٹی آئی نے حکم دیا تھا کہ ڈی چوک پہنچیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہم پر براہ راست کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے، چائنا چوک اور ڈی چوک میں فائرنگ کی گئی۔ اپنی نسلوں کو محفوظ کرنے کے لئے ہمیں انقلاب لانا ہوگا، ہمیں بانی پی ٹی آئی کی رہائی جلد از جلد چاہیے۔
بات سمجھنے کی ہے کہ علی امین گنڈا پور کا انقلاب صرف اپنے لیڈر کی رہائی تک ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انقلاب بھی آ جائے اور وہ اقتدار کے مزے بھی لیتے رہیں حالانکہ جب انقلاب آتا ہے تو سب حکومتوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ پاکستان میں آج تک اس طرح کے انقلاب کی ابھی شروعات ہی نہیں ہوئی۔ البتہ 1969۔1967ء کی ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے دوران جب ’’ نوکر شاہی مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا تھا تو اس وقت بھی سرکاری افسروں کے بارے میں اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی یہ سمجھتا تھا کہ سارے پولیس والے اور سرکاری افسر کرپٹ نہیں۔ ان میں متعدد دیانت دار، مستعد، محنتی اور قابل لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے ملک و قوم کی فلاح و ترقی کے لئے گراں قدر خدمات سر انجام دینے کے علاوہ ہر طرح کی قربانیاں بھی دی ہیں۔ اب جبکہ بانی پی ٹی آئی کی اپیل پر ملک میں انقلاب لانے کا آغاز علی امین گنڈا پور جیسے ایک صوبے کے حکمران نے ڈی چوک میں ہلا گلا کر کے کیا ہے تو انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ دنیا میں اب تک جتنے انقلاب آئے ان میں سے ہر ایک کے پیچھے طویل جدوجہد اور قربانیوں کی داستان ہوتی ہے اور ان قربانیوں میں سے اولین اور بنیادی قربانی اقتدار اور اختیار سے علیحدگی اور سرکاری مفادات و مراعات سے ہٹ جانا ہوتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ گنڈا پور اس ضمن میں روس، چین، ویت نام اور کیوبا میں آنے والے انقلاب کا مطالبہ کر لیتے یا لینن، ما، ہوچی من اور چی گویرا کی انقلابی تحریریں پڑھ لیتے کیونکہ حضرت مولانا رومؒ سے لے کر علامہ اقبالؒ، لینن اور مائو تک سب انقلابی دانشوروں اور لیڈروں کا خیال ہے کہ انقلاب لانے سے پہلے پرانے سٹرکچر کو نیست و نابود کر کے نئے نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا گنڈا پور موجودہ سسٹم کو جڑ سے اکھاڑنے کی پوزیشن میں ہیں؟ اور اگر وہ اس کا بیڑا اٹھا لیں تو کیا پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہوگی؟ یہ دو بڑے سوالیہ نشان ہیں جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔
اگر بقول علی آمین گنڈا پور انقلاب آتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر موجودہ نظام کی جگہ نیا نظام لانا چاہتے ہیں ٹو نئے نظام کے کیا خدوخال ہوں گے؟ اس کے تحت نظامِ حکومت اور معیشت کا کیا نظام ہوگا؟ اور انتقال ِاقتدار کا کیا میکنزم ہوگا؟ انقلاب کا بلیو پرنٹ تیار کیے بغیر علی امین گنڈا پور اور ان کی جماعت کی جانب سے انقلاب کی بات کرنا غیر ذمہ دار حرکت ہی نہیں بلکہ ایک طفلانہ بات بھی ہے۔ ساتھ ہی اسے ملک کی سالمیت اور قوم کی وحدت پر ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی بیش قدر قربانیوں اور جدوجہد کے بعد پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور عوام میں خوش قسمتی سے صرف ایک نکتے پر اتفاقِ رائے (Consensus) پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری، وفاقی پارلیمانی نظام قائم ہوگا جس کے خدوخال اور مختلف پہلوئوں کو 1973ء کے آئین میں وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اس پر ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں جن میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں، پوری طرح متفق ہیں اور وہ 1973ء کے آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنی اپنی پارٹی کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہیں۔ جمہوری، وفاقی اور پارلیمانی نظام پر قومی اتفاقِ رائے ملک کی بقا کی ضمانت ہے۔ جو اس سے روگردانی کرے گا۔ وہ قوم اور ملک سے دشمنی کا مرتکب ہو گا۔
ہاں اس نظام میں اصلاح کی گنجائش ہے اور اس کا طریقہ بھی اس نظام میں دیا گیا ہے۔ دنیا کا کوئی سیاسی نظام کامل نہیں ہوتا۔ ہر نظام میں نقائص موجود ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان نقائص کو دور کرنے کیلئے اس نظام میں کوئی طریقہ کار موجود ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اسے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ گلیوں اور سڑکوں پر جذباتی اور جوش سے بپھرے ہوئے لوگوں کو لا کر ’’ انقلاب‘‘ بپا کیا جانا چاہیے۔ ایسا کرنا نہ صرف غیر قانونی اور غیر آئینی ہو گا بلکہ ایک ایسے وقت میں جب حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا ہے اور ساتھ ہی ملک سنگین معاشی، اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے دو چار ہے، ان حالات میں جذباتی نعرے لگا کر لوگوں کو امن و امان کو تہ و بالا کرنے پر اکسانا کسی طور مناسب نہیں۔ گنڈا پور اور ان کی پارٹی کے لوگ آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کو اپنانے کی بجائے، انارکی کی راہ اختیار کر رہے ہیں؟ دلچسپ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ ’’ انقلاب‘‘ کے ساتھ آئین کی بھی بات کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ سسٹم غیر آئینی ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے سسٹم کی وضاحت نہیں کی۔ کیا اس آئین کے تحت عوام کو حاصل بنیادی حقوق غیر آئینی ہیں؟ کیا انتخابات کا موجودہ طریقہ غیر آئینی ہے؟ کیا ملک میں پارلیمنٹ کی بالا دستی پر مبنی نظام غیر آئینی ہے؟ کیا ملک میں صوبوں اور صوبائی حکومتوں کا قیام غیر آئینی ہے؟ کیا قانون سازی، انتظامی امور اور مالی شعبوں میں مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی سکیم اور فارمولا غیر آئینی ہے؟ کیا آئین کے تحت ایک آزاد عدلیہ کا قیام غیر آئینی ہے؟ اگر گنڈا پور اور بشریٰ بی بی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ غیر آئینی ہے اور ان کی جدوجہد یا ’’ انقلاب‘‘ کا مقصد آئین کا تحفظ یا صحیح آئینی نظام کا قیام ہے تو انہیں سب سے پہلے سپریم کورٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ سپریم کورٹ ہی آئین کی حتمی محافظ ہے۔ سپریم کورٹ یا ان دنوں آئینی عدالت کی طرف رجوع کرنا پی ٹی آئی کے لئے اس لئے بھی لازمی ہے کہ انہوں نے اب تک اس ادارے کو غیر آئینی نہیں کہا۔ دوسرا یہ کہ اس سے عدلیہ پر ان کے اعتماد کا ثبوت ملتا ہے۔ اب اگر آئینی راہ اختیار کرنے کی بجائے یہ لوگ سڑکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں قومی سیاست کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔ ملک پر غیر جمہوری، غیر آئینی اور آمرانہ حکومتوں کے طویل دورِ حکمرانی کی ایک وجہ جمہوری اور سیاسی قوتوں میں نفاق اور تفرقہ بھی رہا ہے۔ جس کی بنیاد پر غیر جمہوری قوتوں نے ماضی میں نہ صرف اس سے فائدہ اٹھایا، بلکہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے ان اختلافی رجحانات کی کبھی درپردہ اور کبھی برملا حوصلہ افزائی بھی کی۔ بدقسمتی سے ہماری بعض سیاسی جماعتیں اس فریب کا شکار بھی ہوتی رہی ہیں۔ اس کی ایک نمایاں مثال 1990ء میں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں ہروانے کے لئے اس کی مخالف سیاسی پارٹیوں میں14کروڑ روپے کی خطیر رقم کی تقسیم ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے سیاسی پارٹیوں نے دور اندیشی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب ان کا ایک نکتے پر اتفاق ہے کہ ملک میں جو بھی سیاسی تبدیلی آئے گی وہ آئین کے مطابق اور جمہوری طریقے سے ہوگی اور کوئی سیاسی پارٹی جمہوریت کے خلاف کسی سازش میں غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار نہیں بنے گی۔ بعد ازاں مئی 2006ء میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدے اور موجودہ اسمبلی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جمہوریت کے دفاع پر اتفاق کے اعلان میں یہی پیغام مضمر ہے لیکن غیر جمہوری طاقتوں کو سیاسی قوتوں کا یہ اتحاد گوارا نہیں۔ وہ اس اتحاد کو توڑنے کے لئے مختلف حربے اور طریقے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی موجودہ نا اتفاقی نے بھی غیر جمہوری طاقتوں کا مدعا پورا کر دیا ہے اور وہ اس ضمن میں من مرضی کی پوری تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ دوسری طرف ایک سیاسی جماعت طاقت ور حلقوں کی اشیر باد دوبارہ سے حاصل کرنے کی تگ و دو کو انقلاب کا نام دے کر نوجوانوں کو بالخصوص گمراہ کر رہی ہے اور آئے روز سڑکوں پر ملکی نظام کو خطرات سے دوچار کرنے اور ملکی مفادات کو تہ و بالا کرنے کی روش پر گامزن ہے۔