دلدار صدقے، لَکھ وار صدقے
تحریر: رفیع صحرائی
نامور کمپیئر، کالم نگار، شاعر، مصنف اور اداکار دلدار پرویز بھٹی 30نومبر 1946ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تاہم برصغیر کی تقسیم کے بعد والدین کے ہمراہ گوجرانوالہ میں آ گئے اور ابتدائی تعلیم یہیں پر حاصل کی۔
دلدار پرویز بھٹی نے عملی زندگی کا آغاز بطور لیکچرار انگریزی گورنمنٹ کالج ساہیوال سے کیا تھا۔ انہیں بیک وقت اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ پنجابی ان کی پسندیدہ زبان تھی۔ جب وہ ٹھیٹھ پنجابی میں بات کر رہے ہوتے تھے تو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ وہ انگریزی زبان کے لیکچرار ہیں اور لیکچرار بھی وہ جن کے بارے میں انگریزی زبان کے مستند استاد اور نامور ادیب جناب پروفیسر جیلانی کامران نے کہا تھا کہ ’’ دلدار بھٹی سے بہتر انگریزی کوئی نہیں پڑھا سکتا‘‘۔
دلدار نے انگریزی میں شاعری بھی کی۔ اس کی خواہش تھی کہ اپنی انگریزی شاعری کا مجموعہ چھپوائے گا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس کی وفات کے بعد اس کی جو انگریزی شاعری مل سکی وہ مقدار میں کم تھی۔
دلدار بھٹی نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور 2سے وہ پنجابی میں فلمی و غیر فلمی نغمات کا فرمائشی پروگرام ’’ تہاڈی فرمائش‘‘ شام سات سے آٹھ بجے بطور کمپیئر پیش کیا کرتا تھا جس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اس پروگرام میں ہر گیت کے بعد لطیفہ سنایا کرتا تھا۔ یہ پروگرام عوام میں بے حد مقبول ہوا اور دلدار بھٹی کے تعارف کا باعث بنا۔ 1974ء میں اسے پاکستان ٹیلی ویژن پر کام کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے دیئے گئے آئیڈیا پر پی ٹی وی لاہور سینٹر سے پہلا پنجابی کوئز شو ’’ ٹاکرا‘‘ کا آغاز ہوا۔ دلدار کی حاضر جوابی اور برجستہ جملوں کی وجہ سے یہ پروگرام بہت مقبول ہوا۔ بعد ازاں اس وقت کے معروف پروگرام نیلام گھر کی طرز پر انہوں نے پی ٹی وی لاہور سے پنجابی پروگرام میلہ شروع کیا جو اُن کے عوامی انداز کی وجہ سے بے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ٹیلی ویعن پر پنجند اور یادش بخیر جیسے مقبولِ عام پروگرام بڑی کامیابی سے پیش کیے۔ وہ 1974ء سے 1994ء یعنی اپنی وفات تک پاکستان ٹیلی ویژن پر کام کرتے رہے۔
دلدار پرویز اخبارات میں ’’ دلداریاں‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ اردو زبان میں ان کی تین کتابیں ’’ آمنا سامنا ‘‘، ’’ دلداریاں‘‘ اور ’’ دلبر‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔
ہمیشہ ہنسنے ہنسانے والا دلدار کبھی کسی کے لیے دکھ کا باعث نہیں بنا۔ اولاد سے محروم تھا مگر اس کی زبان سے کبھی اس محرومی کا شکوہ نہیں سنا گیا البتہ ایک دفعہ اس وقت بہت اداس ہو گیا تھا جب اسے کسی نے بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ کوئی اس قدر بھی بے حس ہو سکتا ہے کہ سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے کو ایسی بات کا طعنہ دے جو اس کے اختیار اور بس میں نہ تھی۔ مگر ایسا ہوا بھی اور اس نے سہا بھی۔
دلدار بھٹی یاروں کا یار اور ان کی مدد کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتا تھا۔ ایک بار اس کے ایک دوست نے اسے کہا کہ ’’ سیکرٹری ایکسائز نے رشوت لینے کے الزام میں میرے بہنوئی کو نوکری سے معطل کر دیا ہے آپ میرے ساتھ چلیں اور سیکرٹری صاحب سے سفارش کریں کہ اسے بحال کر دیں‘‘، دلدار اس کے ساتھ چلا گیا۔ سیکرٹری ایکسائز سے کہا ’’ سر جسے آپ نے معطل کیا ہے وہ ہمارا بہنوئی ہے، ازراہِ کرم اسے بحال کر دیں‘‘۔ سیکرٹری صاحب کہنے لگے ’’ دلدار تمہیں پتا ہے کہ وہ بہت رشوت لیتا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔؟ دلدار بولا، ’’ سر وہ ہم سے بہن لے گیا ہے، آپ رشوت کی بات کر رہے ہیں‘‘۔ سیکرٹری صاحب نے اس کی بات سن کر زبردست قہقہہ لگایا اور بولے، ’’ تمہارے اس خوب صورت جملے کے صدقے میں اسے بحال کرتا ہوں‘‘۔
عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال شروع کیا تو اس کی فنڈ ریزنگ کے لیے دلدار ہر اول دستے میں شامل تھا۔ اسی سلسلے میں وہ 1994ء میں عمران خان کے ساتھ امریکہ گیا۔ وہیں 30 اکتوبر 1994ء کو اسے برین ہیمبرج ہوا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ وہ جو اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کے سبب ہر ایک کے لبوں پر مسکراہٹیں اور قہقہے بکھیرتا تھا اپنے لاتعداد چاہنے والوں کو آہیں اور سسکیاں دے گیا۔ عمران خان خود اس کی میّت پاکستان لے کر آئے۔ دلدار بھٹی کی وفات پر عمران خان کا بیان شائع ہوا کہ ’’ دلدار پرویز بھٹی ہمارا ساتھی تھا۔ وہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کی چندہ مہم میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔ انسانی ہمدردی کی جو تڑپ اس میں تھی وہ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے۔ اس نے پنجاب اور پنجابیوں کا نام روشن کر دیا‘‘۔ وفات کے وقت وہ چلڈرن لائبریری لاہور میں پراجیکٹ ڈائریکٹر تھا۔ دلدار پرویز بھٹی لاہور میں وحدت کالونی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد شوکت خانم میموریل ہسپتال اور ریسرچ سینٹر کے ایک وارڈ کا نام بھی اعزازی طور پر انہی کے نام سے منسوب کیا گیا۔