عوامی شاعر حبیب جالب مرحوم
کالم تماش گاہ
تحریر۔ علی حسن
طاہرہ حبیب جالب کا فون آیا۔ کہہ رہی تھیں کہ جالب صاحب کی کلیات شائع ہو گئی ہے، اس کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والوں کے کئے ریاعتی قیمت پر دستیاب ہے۔ کہنے لگیں کہ کلیات کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے ہے اور ڈاک کا خرچہ آٹھ سو روپے ہوگا۔ جالب اپنے دور کا مزاحمتی شاعری کا بڑا نام ہے۔ ا ب تو سیاسی جلسوں میں غالب کیا بلکہ فیض صاحب بھی بہت کام اس لئے سننے میں آتے ہیں کہ تقاریر کرنے والوں نے فیض صاحب یا جالب صاحب کو پڑھا ہی نہیں ہے، ان کے کلام کو یاد کرنا تو بہت بڑی بات ہے۔ بہر حال یہ لوگوں کا مسئلہ ہے۔ سردست تو جالب کی کلیات فروخت ہونا ہے۔ طاہرہ کا کہنا ہے کہ گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے انہیں کرایہ کی ٹیکسی چلانے کے علاوہ بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ آٹھ بھائی بہنوں میں سے زندہ بچ جانے والے طاہرہ سمیت چار بہنیں ہیں جنہیں ماحول خراب ہونے کی وجہ سے طاہرہ نہیں چاہتی کہ وہ گھر سے باہر نکلیں۔ جالب کی زندگی میں انہیں اپنے پیار اور چاہت کا یقین دلانے والے تو بہت تھے لیکن ان کی موت کے بعد بقول طاہرہ سب ہی کھا گئے۔ یہ رونا تو طاہرہ کا ہی نہیں ہے بلکہ فنون لطیفہ یا دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کے خاندان والوں کا ہی ہوتا ۔ ضرورت مند لوگ اپنے کشکول کس کے سامنے پھیلائیں۔
جالب کی شاعری ایک زمانے میں تو بہت پڑھی جاتی تھی، بہت سنی جاتی تھی۔
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کایوں ویران نہیں تھا
ان کے ہر شعر میں کاٹ موجود ہے۔ وہ حکمران کے کردار کو ہی رونا روتے ہیں۔ ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے امین مغل لکھتے ہیں ’’ حبیب جالب کے ہاں لوٹ کھسوٹ کرنے والوں سے نفرت اس عظیم انسانی جذبے سے ابھرتی ہے جو تمام انسانیت کو ایک اکائی سمجھتا ہے جس میں رنگ، نسل، عقیدے اور جنس کی قید نہیں ، جو جغرافیائی حد بندیوں سے بے نیاز ہے۔ اپنے وقت کے معروف دانشور سبط حسن نے جالب کی شاعری کے ایک مجموعے ’’ ذکر بہتے کوں کا ‘‘ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ حبیب جالب مشاہدہ حق کی گفتگو اشاروں کنایوں میں نہیں کرتا اور نہ ہی ابہام کے بے ساکھیوں سے کام لیتا ہے۔ حبیب جالب غم ذات اور غم زمانہ دقنوں کا رمز شنا س ہے بلکہ وہ تو غم زمانہ کو بھی اپنا ذاتی غم سمجھتا ہے ۔ فلسطین کا جہاد ہویا بلوچستان کا معرکہ، فوجی آمریت کہ وسعت درازیاں ہوں، ص ہے یا سیاسی رہنمائوں کا قتل، سندھ کے لسانی فسادات ہوں یا آزادی صحافت کی تذلیل، ہر انسانیت سوزسانحہ اس کی اپنی ذات کا المیہ ہوجاتا ہے اور احساس غم کی یہ چبھن آخر کار فریاد کی لے بن کر پکا ر اٹھتی ہے کہ
ہریالی کو آنکھیں ترسیںبگیا لہولہان
پیار کے گیت سنائوں کس کو شہر ہوئے ویران، بگیا لہو لہاں
ڈستی ہیں سورج کی کرنیں چاند جلائے جان
پگ پگ خوف کے گہرے سائے جیون موت سماں
چاروں اور ہوا پھرتی ہے لے کر تیر کما، بگیا لہولہاں
مشرقی پاکستان میں فوج کشی کے موقع پر کہے گئے اشعار ہوں تھے
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے رہے ہو
گمان تھا تم کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
میر بالاچ خان نے ایک مضمون میں لکھا ہے ’’ اس ملک میں کوئی صاحب کردار شخص باقی نہیں رہا۔ عمر کے اس آخری حصے میں اب تو میں خود اپنی ذات سے ہے متاثر ہوں، اس کے علاوہ بلوچوں کے لئے میری ( جاب) محبت اسی طرح برقرار ہے‘‘۔ میں نے ان کا ماتھا چوما ایک ایسے انسان کا کا ماتھا جس نے خدا کے علاوہ کسے کے سامنے جھکنا نہیں سیکھا تھا بلاشبہ وہ ہمارے عہد کا سب سے بڑا آدمی تھا جن نے تمام عمر فقر و فاقہ میں گزری، آمروں ، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں اور قارون سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور ایسی موت مرا کہ ان کے بے داغ شخصیت پر کوئی دھبہ کوئی ملامت کوئی خجالت نہیں آئی۔ اگر جالب چاہتا تو ایوب خان کیا کچھ نہیں دیتے، گورنر امیر محمد خان کا کچھ نہ لٹاتے، اور سب بڑھ کر یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو ان کے مداح تھے لیکن حبیب جالب کچھ لینا تو کجا، بھٹو سے ملنے کے روادار بھی نہ ہوئے پھر ضیاء الحق دس برش تک ان کی منت سماجت کرتے رہے کہ آپ کی ملاقات کے لئے آنا چاہتا ہوں ، آپ کی زیارت کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس فقیر، درویش اور علامتی صوفی نے طویل ترین مارشل لاء کے خالق سے ملنا گوارہ نہیں کیا۔ جالب نے ضیاء الحق کی زندگی میں کہا تھا
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلم کو ضیا صر صر کا صبا بندے کا خدا کیا لکھنا
طاہرہ حبیب جالب لوگوں کے سامنے علامتی طور پر ہاتھ پھیلا رہی ہے کہ انہیں جالب صاحب کی شاعری کے مجموعے کلیات کو فروخت کرنا ہے۔ وہ جالب کے نام کو فروخت کرنا نہیں چاہتی ہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کو ان کی شاعری سے ایک بار بھر متعارف کرانا چاہتی ہیں۔ جالب کی شاعری پر بھی دیر تک تالیاں بجانے والے ان کی بیٹی کی آواز پر بھی لبیک کہتے ہوئے تالیاں بجائیں اور حبیب جالب سے چاہت کا تقاضہ پورا کریں۔