تشویشناک آبی صورت حال
عابد ضمیر ہاشمی
ہر جاندار کی بنیادی ضرورت پانی ہے، جس کی عدم دستیابی زندگی کا وجود مشکل ہی نہیں نا ممکن بنا دیتی ہے۔ ہماری بے حسی و لاپرواہی کے باعث ہم اس قدرتی نعمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز پاکستان بشمول وادی کشمیر میٹھے اور صاف قدرتی پانی کے ذخائر ختم ہوتے جارہے ہیں، یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے جس کی وجوہات ہمارا پانی کو فضول ضائع کرنا، نلکے، ٹونٹیاں کھلی چھوڑ دینا، پانی کا بہت زیادہ ضیاع اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی شامل ہیں۔
آزاد کشمیر کے متعدد دیہات کا انحصار ایک ایک چشمے پر ہے، کچھ عرصہ بارش نہ ہو تو ان پر خواتین کا رش ہوتا اور پانی کی مقدار میں بھی کمی ہو جاتی۔ علاوہ ازیں کئی شہروں میں بورنگ کا پانی اب غائب ہو چکا ہے۔ طویل عرصہ سے اس امر کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دُنیا میں پانی کی شدید کمی سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی سر فہرست ہے مزید برآں کے پاکستان میں ہنگامی صورت حال میں 30دن کا پانی سٹور کرنے کی صلاحیت ہے جب کہ ایسی آب و ہوا والے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ 1000دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے۔ اب ممکنہ کمی کے آثار بھی نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں کسی معقول انتظام کے نہ ہونے سے وادی کشمیر میں چند ایام بارش نہ ہونے پر شدید آبی بحران پیدا ہے، دور دور سے چشموں سے سروں پر پانی اٹھا کر لایا جاتا ہے۔
آبی سنگین صورت حال کا اظہار پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر ( پی سی آر ڈبلیو آر) نے بھی کیا ہے۔ ادارے کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 2025ء تک پاکستان کو شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کونسل کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ وطن ِ عزیز 1990ء میں ان ممالک کی فہرست میں تھا جہاں آبی ذخائر کم ، آبادی زیادہ تھی۔ 2005ء میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوا جن میں پانی کے آبی ذخائر کم ہیں رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان 17ممالک میں شامل ہے جنہیں پانی کی اشد کمی کا سامنا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اسے مزید گھمبیر کر رہی ہے جو کہ 2030ء تک پچیس کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی، اس بات کا اندازہ اس رپورٹ سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہر شہری کے لئے کئی ہزار کیوبک میٹر تھا جو کہ موجودہ وقت میں 1ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور 2025ء تک 8سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔
اسی حوالہ سے اقوام ِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEPکی جانب سے 1999ء میں رپورٹ جاری ہوئی تھی جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کرہ ِ ارض کے دو بڑے خطوں میں ایک مسئلہ پانی کا بھی ہے جس پر تیسری عالمی جنگ بھی ممکن ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں دنیا کے پچاس ممالک سے 200سائنسدانوں کی شرکت کی، عالمی اداروں کی جائزہ رپورٹ کے مطابق ایک عشرے کے دوران دنیا کے شہروں میں 114ملین افراد کا اضافہ ہوا ، جن کے گھروں میں یا گھروں کے نزدیک پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ دنیا میں گندا پانی پینے والوں کی تعداد 80کروڑ کی لگ بھگ ہے۔ 2017ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کے پانی میں زہریلے مادے شامل ہیں، جب کہ 70فیصد آبادی زیر زمین پانی استعمال کر رہی ہے جس کے باعث بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔ اس صورت حال کے بارے وڈرولسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز واشنگٹن میں جنوبی مشرقی ایشیا پروگرام کے تحقیق کار مائیکل کوکلمین لکھتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی، زراعت کا انحصار صرف ایک دریا پر ہے جس کی وجہ سے آنے والے وقت میں وہ فصلیں کاشت کرنا ممکن نہیں ہوں گی جن میں پانی وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آبی کمی سے متاثر ہونے والا زرعی نظام پاکستان میں خوراک کے نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں روزانہ 350سے 1000لٹر پانی فی کس حساب سے استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان اور غریب ممالک میں 20سے 70لیٹر پانی روزانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں 1.1ارب افراد صاف پانی پینے سے محروم ہیں ۔ پاکستان زرعی ملک ہے جو کہ 90فیصد آبی وسائل زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی باعث دریائوں کے بہائو میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ دوسری جانب گلیشرز کے پگھلنے کی وجہ سے دنیا کو صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے، جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت شامل ہیں، جس کے باعث افریقہ، ایشیا اور دنیا کے بعض علاقوں میں جنگیں بھی ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی آبی شہ رگ دریا سندھ میں بھی پانی کی مقدار کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان بھارت سندھ طاس معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا جس کی وجہ سے پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ بھارت کا دعویٰ بھی ہے کہ پاکستان کو صحرا بنا کر رکھنا ہے اس طرح پاکستان ، بھارت کے درمیان پانی پر مزید تنازعات جنم لے سکتے ہیں کیوں کہ دونوں ممالک میں پانی کی ضرورت میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس حوالہ سے پاکستان نے ہندوستان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ1960ء میں ہونے والے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے تاکہ پاکستان متاثر نہ ہو عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پینے کا صاف پانی 18%آبادی کو دستیاب ہے جو ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق وطن ِ عزیز میں تینوں اہم ذخائر تربیلا، منگلا چشمے میں پانی کی گنجائش میں 83%کمی ہو چکی، تینوں بڑے ذخائر کی اصل گنجائش ایک کروڑ 75لاک 50ہزار ایکڑ فٹ سے کم ہو کر ایک کروڑ21لاکھ 30ہزار ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2012ء میں جاری کی گئی رپورٹ میں بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کرتی جا رہی ان وجوہات کی بناء پر نئے آبی ذخائر نا گزیر ہیں، اگر یہی صورت حال رہی پانی چوری، پانی کا بے تحاشا ضیاع، جنگلات کی مسلسل کٹائی، اس سنگین صورتحال کی طرف توجہ نہ دی گئی تو عام آدمی کے لیے پانی کی عدم دستیابی ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔