ہماری بکھرتی ہوئی پہچان
ثمر عباس لنگاہ
یوں تو پاکستانی اپنی تہذیبی رنگا رنگی اور لسانی تنوع پر فخر کرتے ہیں مگر ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسی تنوع پر فخر کرتے کرتے ہم اپنی اجتماعی شناخت کو پس پشت ڈالنے لگے ہیں۔ سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان ہونے کی حیثیت سے تو ہم خوشی خوشی اپنی انفرادیت کا ڈنکا بجاتے ہیں مگر ’’ پاکستانی‘‘ ہونے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ گویا ہم کسی گمنام وادی کی بے نام گلی میں بھٹک گئے ہیں۔
یہ وہی پاکستان ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا، ایک ایسا نظریہ جو مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی انفرادیت کو تحفظ دینے کے لیے تشکیل پایا تھا۔ یہ زمین اس عظیم مقصد کے تحت حاصل کی گئی تھی کہ یہاں مسلمان اپنے دینی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے ساتھ آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ مگر آج ہم اسی بنیاد کو فراموش کر چکے ہیں۔ ہماری انفرادیت کا درخت اپنی جڑوں سے کٹ کر ایک ایسی کھائی میں تنہا کھڑا ہے جہاں نہ پانی ہے، نہ ہوا، نہ ہی روشنی ۔۔۔
اگر ہم تاریخ کا آئینہ میں جھانکیں تو قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت ایک مینار نور کی طرح چمکتی نظر آتی ہے۔ ان کی تقریروں کا ہر حرف، ان کی تحریروں کی ہر سطر ہمیں اتحاد و یکجہتی کا درس دیتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری اصل پہچان ’’ مسلمان‘‘ اور ’’ پاکستانی‘‘ ہونے میں ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری شناخت اس کی جگہ نہیں لے سکتی۔ مگر آج ہم ان کی اس بصیرت کو نظر انداز کر کے خود کو لسانی اور علاقائی تعصبات کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام نے اس تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ہر صوبے کا نصاب اپنے مقامی ہیروز اور ثقافتوں کو ایسے اجاگر کرتا ہے جیسے پورے پاکستان کی تاریخ ان کے گرد گھومتی ہو۔ قومی یکجہتی اور اجتماعی شناخت کو پس پشت ڈال کر ایک ایسی نسل پروان چڑھائی جا رہی ہے جو اپنی جڑوں سے بے خبر ہے۔ یہ سوچ نہ صرف ہماری نئی نسل کو تقسیم کر رہی ہے بلکہ قومی اتحاد کی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر رہی ہے۔
یہ سوچنے کا وقت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ وہ عظیم خواب جو ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا، وہ کہاں ہے؟ ۔
ہم ان کی قربانیوں کو کس طرح بھول بیٹھے ہیں؟ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایک مضبوط قوم وہ ہوتی ہے جو اپنی انفرادیت کو اجتماعی مفاد کے تابع کرتی ہے، جو اپنے تعصبات کو اجتماعی بھلائی کے لیے قربان کر دیتی ہے۔
ارے ۔۔۔ سوئے ہوئے ضمیروں! جاگو ۔۔۔ جاگو اور دیکھو دنیا ہمارے بکھرے ہوئے وجود کا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہماری تقسیم شدہ شناخت اور انتشار ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے جہاں ہر کوئی اپنی انفرادیت کا پرچم اٹھائے کھڑا ہے، مگر قومی پرچم کے نیچے کھڑا ہونے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو وہ دن دور نہیں جب وقت ہمیں اپنے صفحے سے مٹا دے گا اور ہماری تاریخ ایک بکھرے خواب کی صورت درج ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اجتماعی پہچان کو دوبارہ سے زندہ کریں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہماری انفرادیت، ہماری زبانیں، ہمارے رسم و رواج اور ہماری ثقافتیں اسی وقت زندہ رہ سکتی ہیں جب ہم انہیں پاکستان کی اجتماعی شناخت کے سائے تلے پروان چڑھائیں۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، اپنی نئی نسل کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ سندھی، بلوچی، پنجابی یا پٹھان ہونے سے پہلے پاکستانی ہیں۔
آئیے! ابھی سے عہد کریں ۔۔۔ اپنی انا کے پردے ہٹا کر، اپنی آنکھوں پر لگی تعصب کی پٹی اتار کر ایک نئی منزل کا تعین کریں۔ وہ منزل جہاں ایک پاکستانی اپنی انفرادیت کو فخر کے ساتھ اپنائے مگر اس انفرادیت کو قومی اتحاد کا حصہ سمجھے۔
ہمیں اپنی پہچان کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ورنہ یہ پہچان بکھر کر مٹ جائے گی اور تاریخ ہمیں محض ایک عبرت کے طور پر یاد رکھے گی۔
اور ہاں یاد رکھیے، تبدیلی راتوں رات نہیں آتی بلکہ وقت لگتا ہے۔۔۔