ColumnImtiaz Aasi

سانحہ اسلام آباد قیادت کے فقدان کا نتیجہ

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
24 نومبر ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب پی ٹی آئی کے نہتے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائر ل ہونے والی زخمیوں کی فہرست میں زیادہ تر تعداد کے پی کے لوگوں کی ہے۔ سانحہ میں ہونے والی ہلاکتوں بارے متضاد دعوے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما اور رکن اسمبلی سردار لطیف کھوسہ نے ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد 278بتائی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا کا دعویٰ ہے 20کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیرداخلہ نے دعوی کیاہے پی ٹی آئی کسی ایک ہلاک ہونے والے کا نام بتا دے۔ بہرکیف یہ بات ایک نہ ایک روز سامنے آجائے گی آیا پی ٹی آئی اور وزیرداخلہ میں سچا کون ہے۔ پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسف زئی نے پنجاب کی پی ٹی آئی قیادت پر غائب ہونے کا الزام لگایا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا ہم اپنے کئی کالموں میں کہہ چکے تھے پنجاب سے پی ٹی آئی کے احتجاج میں خاطر خواہ ورکرز شامل نہیں ہوں گے۔ اسلام آباد کے سانحہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔ اسلام آباد کے سانحہ میں جو لوگ مارئے گئے خواہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا وہ سب اس ملک کے رہنے والے تھے ۔آج ان کے گھروں میں جو کہرام مچا ہوگا اس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کتنے بچے یتیم اور خواتین بیوہ ہوئی ہوں گی۔ ہونا تو چاہیے اس سانحہ کے محرکات کا پتہ چلانے کے لئے سپریم کورٹ کے کسی حاضر یا ریٹائرڈ راست باز جج سے جس پر پی ٹی آئی کو بھی اعتماد ہو جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ وزیر اعلیٰ گنڈا پور نے پرسہ دینے کے لئے ہلاک ہونے والے ورکرز کے اہل خاندان کو ایک ایک کروڑ دینے کا اعلان کیا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے عدالتوں کی طرف سے پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے باوجود عوام کو جلسہ میں جانے سے روکنے کیلئے برائے کار لائے جانے والے ہتھکنڈوں سے حکومت کی بوکھلاہٹ عیاں ہوتی ہے۔ جہاں تک پی ٹی آئی قیادت کی بات ہے ہم کہیں گے اسلام آباد کا سانحہ پی ٹی آئی میں عدم ہم آہنگی اور حکمت عملی طے کئے بغیر پیش آیا ہے۔ اس سے قبل سانحہ نو مئی وقوع پذیر ہو چکا ہے پی ٹی آئی کے مطالبے کے باوجود جوڈیشل کمیشن کا قیام نہ ہونا اس امر کا غماز ہے دال میں کچھ کالا ہے ورنہ معمولی معمولی واقعات پر حکومت جوڈیشل قائم کر دیتی ہے۔ اتنے بڑے دو سانحات پیش آنے کے باوجود حکومت کا جوڈیشل کمیشن قائم نہ کرنا سوالیہ نشان ہے۔ ملک کے عوام ان سانحات کے حقائق جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت میں ہم آہنگی نہ ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے عمران خان سنگ جانی میں جلسہ کرنے پر رضامند تھے جب کہ ان کی اہلیہ صاحبہ ڈی چوک کی طرف پیش قدمی کرنے پر بضد تھیں۔ چلیں پی ٹی آئی کے لوگ کسی طرح ڈی چوک کے قریب پہنچ چکے تھے اور وہ کسی قسم کی توڑ پھوڑ نہیں کر رہے تھے تو انہیں منتشر کرنے کیلئے طاقت کے استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ سردی کے موسم میں جب ان کو کھانے پینے کو کچھ نہیں ملتا اور سردی سے بچنے کے لئے خاطر خواہ بندوبست نہ ہونے سے وہ کتنے دن تک ڈی چوک میں قیام کر سکتے تھے جو انہیں منتشر کرنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کرنا پڑا۔ اسلام آباد پولیس جو وفاقی دارالحکومت کی محافظ ہے اور رینجزر جو ملک کے اہم مقامات پر فرائض کی انجام دہی کے لئے مامور ہے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو منتشر کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں افواج پاکستان کو بلانا پڑا جنہیں گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والوں کو لائٹس بجھا کر احتجاج کرنے والوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔ یہ بات درست ہے عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے نواز شریف حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں طویل دھرنا دینے کا ریکارڈ قائم کیا لیکن عمران خان اور ان کی جماعت کا یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی پی ٹی آئی کو ڈی چوک میں اتنا طویل دھرنا دینے کے پس پردہ کن قوتوں کی آشیرباد تھی جس سے پی ٹی آئی اب محروم ہو چکی ہے۔ وطن عزیز میں حکومت کے خلاف دھرنا دینے کی رسم جماعت اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد نے ڈالی تھی جس کے بعد اسلام آباد میں دھرنوں کے سلسلے کا آغاز ہوا ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی کبھی پی ٹی آئی کو طاقت ور حلقوں کا قرب حاصل تھا جس سے وہ اب محروم ہو چکے ہیں۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے پی ٹی آئی کے احتجاج میں افغان شہری بھی شامل تھے سوال ہے افغانوں کو یہاں قیام کی اجازت کس نے دی ہے۔ کئی بار اعلان کرنے کے باوجود حکومت انہیں واپس بھیجنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے دسمبر تک افغان شہریوں کو نکالنے کا نیا اعلان کیا ہے دیکھتے ہیں وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ تعجب ہے19لاکھ سے زائد قانونی افغان پناہ گزین یہاں مقیم ہیں جب کہ 42لاکھ سے زیادہ غیر قانونی افغان مہاجرین یہاں رہ رہے ہیں۔ غیر قانونی افغان مہاجرین کو اس وقت تک بے دخل نہیں کیا جا سکتا جب تک مقامی پولیس اخلاص اور ملکی مفاد میں انہیں بے دخل کرنے کے لئے اقدامات نہیں کرتی۔ غیر قانونی مہاجرین کو معلومات کے باوجود بے دخل نہ کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قوموں میں انقلاب جلسوں اور دھرنوں سے نہیں آیا کرتے بلکہ عوام کو تبدیلی کے لئے تیار کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان بہت جذباتی واقع ہوئے ہیں یہ علیحدہ بات ہے وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ وہ غلامی سے نکل کر آزادی کے خواہاں ہیں تو آزادی کا حصول چند ماہ یا دنوں میں ممکن نہیں اس مقصد کے لئے پرامن جدوجہد کا راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button