CM RizwanColumn

جگائے گا کون؟

تین نومبر، مشرف کی ایمرجنسی
تحریر : سی ایم رضوان
پرویز مشرف کے نو سالہ دورِ اقتدار کی چاپ کئی برس گزر جانے کے باوجود آج بھی پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ بارہ اکتوبر 1999کو بطور آرمی چیف جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے سے لے کر اگست 2008میں صدرِ مملکت کے عہدے سے مستعفی ہونے تک پرویز مشرف پاکستان میں طاقت کا مرکز رہے۔ اس دوران 2002سے 2007 تک ملک میں بظاہر جمہوری حکومت رہی لیکن اصل کنٹرول پرویز مشرف کے پاس ہی تھا۔ پرویز مشرف11اگست 1943کو دہلی میں ’ نہر والی حویلی‘ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت اُن کا خاندان کراچی منتقل ہوا جہاں پرویز مشرف نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ لاہور کے ایف سی کالج سے انٹر کیا جس کے بعد 1964میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ پرویز مشرف اپنی خود نوشت ’ سب سے پہلے پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ کراچی میں اس دور میں اچھے کالجز کی کمی تھی، لہٰذا والدین نے لاہور کے ایف سی کالج کا انتخاب کیا جو امریکی عیسائی مبلغوں کے زیرِ انتظام تھا۔ پرویز مشرف نے پی ایم اے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 36لائٹ اینٹی ایئر کرافٹ رجمنٹ کا انتخاب کیا۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ افسر کو بغیر بتائے آٹھ دن کی چھٹی پر جانے کے باعث اُنہیں کورٹ مارشل کی کارروائی کا سامنا تھا لیکن 1965کی پاک، بھارت جنگ کی وجہ سے وہ بچ گئے۔ انہوں نے 1965 اور 1971کی پاک، بھارت جنگوں میں حصہ لیا اور 65کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر لڑائی لڑی۔ پرویز مشرف 1985 سے 1998تک لیفٹیننٹ کرنل سے ترقی کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل کے رینک تک پہنچے اور اس کے بعد اُن کی زندگی میں وہ اہم موڑ آیا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔
سال 1998میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے نیول اسٹاف کالج میں قومی سطح پر نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز دی جو اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بالکل بھی نہ بھائی اور اُنہوں نے آرمی چیف سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ جنرل جہانگیر کرامت نے بغیر کسی لیت و لعل کے گھر جانے کو ترجیح دی جس کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف کے پاس نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لئے نام سامنے آئے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ( ر) ضیاء الدین بٹ نے چند برس قبل ایک اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ جنرل مشرف کو سینیارٹی میں نیچے ہونے کے باوجود نواز شریف نے آرمی چیف بنایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ( ر) افتحار علی خان کی ایڈوائس پر نواز شریف نے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا تھا۔ جنرل افتخار علی خان مسلم لیگ ( ن) کے ناراض رہنما چودھری نثار علی خان کے بھائی تھے جن کا 2009میں انتقال ہو چکا ہے۔
پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنرل جہانگیر کرامت کو صرف ایک بیان دینے پر عہدے سے ہٹانے پر فوج میں غم و غصہ پایا جاتا تھا، تاہم اُنہوں نے آئین کے تحت جمہوری حکومت کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان تعلقات فروری 1999میں ہی کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے جب اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی بذریعہ بس لاہور پہنچے تھے۔ آرمی چیف بھارتی وزیرِ اعظم کے استقبال کے دوران واہگہ بارڈر بھی نہیں پہنچے تھے۔ ان کے بقول نواز شریف کے ساتھ اُن کے ابتدائی چند ماہ اچھے تعلقات رہے، تاہم کارگل جنگ اور چار جولائی 1999کو وزیرِ اعظم کے دورہ امریکہ کے بعد نواز شریف کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے۔ خیال رہے کہ مئی 1999میں پاکستان اور بھارتی کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول ( ایل او سی) پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ بھارت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج نے ایل او سی کی خلاف ورزی کی ہے۔ کئی روز کی لڑائی کے بعد بین الاقوامی سرحد پر جنگ کے بادل بھی منڈلانے لگے تھے۔ تاہم جولائی 1999میں وزیرِ اعظم نواز شریف اور امریکی صدر بل کلنٹن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد پاکستان نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا تھا۔ پرویز مشرف کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اُنہوں نے کارگل آپریشن سے متعلق نواز شریف کو آگاہ کیا تھا۔ تاہم نواز شریف مختلف مواقع پر یہ کہتے رہے ہیں کہ کارگل آپریشن پرویز مشرف نے شروع کیا جبکہ پرویز مشرف نواز شریف کی بل کلنٹن سے ملاقات کو کارگل جنگ میں پاکستان کی پسپائی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم کارگل جنگ کے اختتام کے باوجود آرمی چیف اور وزیرِ اعظم کے تعلقات میں بہتری نہ آ سکی اور پھر 12اکتوبر 1999آ گیا جب آرمی چیف پرویز مشرف کے طیارے کو کراچی ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی اجازت نہ ملی۔ پرویز مشرف سری لنکا کا سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد پی آئی اے کی پرواز سے وطن واپس آ رہے تھے۔ پرویز مشرف ابھی پاکستان پہنچے ہی نہیں تھے کہ سرکاری ٹی وی پر یہ خبریں چلنے لگیں کہ وزیرِ اعظم نے جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے فارغ کر کے جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔ اس روز کے واقعات کے حوالے سے مسلم لیگ ( ن) کے سینئر رہنما اور اس وقت وفاقی وزیر جاوید ہاشمی اپنی کتاب ’’ ہاں! میں باغی ہوں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اُن کے سٹاف نے 12اکتوبر کی شام اُنہیں بتایا کہ وزیرِ اعظم نے آرمی چیف کو تبدیل کر دیا ہے۔ جاوید ہاشمی کے بقول انہوں نے یہ سنتے ہی اپنے سٹاف سے کہا کہ بس اب سامان باندھ لیں۔ جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ اُن کے سامنے آگے کا نقشہ واضح تھا اور پھر وہی ہوا جس کا اُنہیں اندیشہ تھا، کچھ ہی دیر بعد وزیرِ اعظم ہائوس، پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کی عمارتوں پر فوج کا قبضہ تھا۔ پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی 12اور 13اکتوبر کی درمیانی شب کمانڈو وردی میں قوم سے خطاب کیا اور نواز شریف حکومت پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے ملک کو درست ڈگر پر ڈالنے کے دعوے کیے۔ وہ 1999سے 2002کے دوران مکمل طور پر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور سپریم کورٹ نے بھی ’ نظریہ ضرورت‘ کے تحت اُن کے اقتدار کو آئینی تحفظ دیا۔
اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے پرویز مشرف نے 30اپریل 2002کو ایک ریفرنڈم کرایا۔ ریفرنڈم میں عوام سے سوال کیا گیا تھا کہ اگر وہ ملک میں معاشی اصلاحات اور ترقی کا تسلسل چاہتے ہیں تو آرمی چیف اور صدر کو پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے حق میں ووٹ دیں۔ اس ریفرنڈم میں 97فیصد سے زائد شہریوں نے پرویز مشرف کے حق میں ووٹ دیا۔
پرویز مشرف کو ملک میں عام انتخابات کا وعدہ پورا کرنے میں تین برس لگے اور آخر کار 2002میں عام انتخابات ہوئے۔ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی ملک میں غیر موجودگی میں ہونے والے ان انتخابات میں پرویز مشرف کی ’ منظورِ نظر ‘ پارٹی مسلم لیگ ( ق) کامیاب ہوئی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اللہ جمالی وزیرِاعظم بنے۔ تاہم حیران کن طور پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل ( ایم ایم اے) دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ پرویز مشرف نے انتخابی اور سیاسی اصلاحات پر مبنی آئین میں سترہویں ترمیم کا بل منظور کرانے کے لئے ایم ایم اے کی حمایت حاصل کی جس کے بدلے میں اُنہوں نے دسمبر 2004میں وردی اُتارنے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہو سکا۔ ناقدین کے مطابق آئین میں سترہویں ترمیم کے ذریعے دو سے زائد مرتبہ وزیرِ اعظم بننے پر پابندی کی شق سب سے نمایاں تھی جس کا مقصد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا تھا۔ سال 2004میں پرویز مشرف نے میر ظفر اللہ جمالی کو اُن کے عہدے سے برطرف کیا اور دو ماہ کے لئے چودھری شجاعت حسین ملک کے وزیرِ اعظم بنے۔ بعدازاں امریکہ سے آنے والے بینکر شوکت عزیز ملک کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
وردی اُتارنے کا وعدہ پورا نہ کرنے پر جہاں پرویز مشرف پر ایم ایم اے کی جانب سے سیاسی دبائو بڑھ رہا تھا تو وہیں مارچ 2007 میں پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو اپنے دفتر بلا کر مبینہ طور پر استعفے دینے کا کہا، لیکن افتخار چودھری نے مستعفی ہونے سے انکار کیا اور پورے ملک میں وکلا نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ملک بھر میں وکلا تحریک کا آغاز پرویز مشرف کے زوال کا آغاز بھی ثابت ہوا اور اقتدار پر اُن کی گرفت بھی کمزور پڑتی گئی۔ اس دوران جولائی 2007میں اسلام آباد کی لال مسجد میں مبینہ دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر فوج نے آپریشن کیا جس پر لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی ہلاک ہو گئے۔ لال مسجد انتظامیہ نے اس واقعے میں درجنوں طلبہ کی ہلاکت کے بھی دعوے کیے۔ لال مسجد پر چڑھائی کا ذمے دار بھی سابق صدر پرویز مشرف کو ٹھہرایا گیا اور عوامی سطح پر اُن کے خلاف غصے میں اضافہ ہوا۔ نومبر 2007میں آخر کار آٹھ برس تک بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کرنے والے پرویز مشرف نے اپنی وردی اُتار دی اور فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد کر دی۔ لیکن اس سے قبل آج کے دن یعنی تین نومبر کو بطور فوجی صدر اُنہوں نے ملک میں آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ ایمرجنسی کے دوران سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھی گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔
اکتوبر 2007میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو اور نومبر 2007میں نواز شریف اور اُن کے بھائی شہباز شریف بھی وطن واپس آ گئے اور عملی سیاست کا دوبارہ آغاز کر دیا۔ تاہم دو برس بعد سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس آرڈیننس کو مفادِ عامہ سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ 2013کے عام انتخابات سے قبل اُنہوں نے وطن واپسی کا اشارہ دیا اور عام انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے وہ 24مارچ 2013کو کراچی پہنچے جہاں ایئر پورٹ پر اُن کے درجنوں کارکنوں نے استقبال کیا۔ البتہ چترال میں قومی اسمبلی کے حلقے سے الیکشن لڑنے کی خواہش اُن کے دل ہی میں رہی اور الیکشن ٹریبونل نے اُنہیں الیکشن لڑنے کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ اپریل 2013میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز کو نظر بند کرنے کے الزام میں سابق صدر کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے اُن کی گرفتاری کے احکامات دیئے۔ تاہم وہ سکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں عدالت سے جیل جانے کے بجائے اسلام آباد کے نواحی علاقے چک شہزاد پر واقع اپنے فارم ہاس پہنچ گئے۔ اس دوران لال مسجد کیس، بے نظیر بھٹو قتل کیس میں مقدمات کے اندراج کے باعث اُن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بعدازاں مارچ 2016میں طبی بنیادوں پر اُن کے بیرونِ ملک علاج کے لئے اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل) سے نکال دیا گیا اور پھر وہ ملک سے چلے گئے۔
اس دوران 2017میں مقامی نجی نیوز چینل میں اُنہوں نے ’ سب سے پہلے پاکستان‘ کے نام سے پروگرام بھی شروع کیا اور بھارت سمیت دنیا کے مختلف نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں بھی شریک ہوتے رہے۔ سابق صدر پر سال 2007میں ملک کا آئین معطل کرنے اور ایمرجنسی لگانے پر غداری کے الزامات لگائے گئے تھے۔ جس پر ان کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 26جون 2013کو انکوائری کے لئے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے 16نومبر 2013کو رپورٹ جمع کرائی۔ پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 2019میں سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی تھی لیکن 2020میں لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ سابق فوجی آمر کو سزائے موت سنانے کے فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ بعد میں حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے لیکن سابق صدر پرویز مشرف طبعی موت مرے جبکہ آئین اور جمہوریت کے خلاف ان بحیثیت مجموعی آمرانہ اقدامات کا تذکرہ برسوں ہوتا رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button