انگشت بدنداں
شکیل امجد صادق
کچھ حقائق بہت حیران کن ہوتے ہیں اور انہیں جان کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ روس بیک وقت حیران کن اور دلچسپ ملک ہے، یہ دنیا کے 11فیصد رقبے پر محیط ہے، گیارہ ٹائم زون ہیں، ملک کے اندر 9گھنٹے کی فلائٹس بھی چلتی ہیں، سرحد گیارہ ملکوں سے ملتی ہے، یہ جنوب میں جاپان، چین، شمالی کوریا اور منگولیا سے ملتا ہے، درمیان میں سینٹرل ایشیا کے ملکوں قزاقستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، آذر بائیجان، جارجیا اور آرمینیا، یورپ کی سائیڈ سے یوکرائن، رومانیہ، بلغاریہ، بیلاروس، لتھونیا، لٹویا اور اسٹونیا، قطب شمالی کی طرف سے فن لینڈ اور ناروے اور یہ دنیا کے آخری سرے سے الاسکا کے ذریعے امریکہ سے بھی جڑا ہوا ہے۔
روس کی تین سرحدیں انتہائی دلچسپ ہیں، یہ سینٹ پیٹرز برگ سے فن لینڈ سے ملتا ہے، پیٹر برگ سے ٹرین یا فیری کے ذریعے فن لینڈ جانا ایک رومانوی تجربہ ہے، ناروے کے علاقے سورورینجر اور روس کے شہر پیچنگ سکی کے درمیان دس منٹ کا فاصلہ ہے، لوگ یہ فاصلہ پیدل عبور نہیں کر سکتے چنانچہ یہ روسی علاقے سے سائیکلیں لیتے ہیں، سائیکل پر ناروے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر سائیکل سرحد پر پھینک کر آگے روانہ ہو جاتے ہیں، سورورینجر شہر دنیا میں بے کار سائیکلوں کا قبرستان بن چکا ہے، شہر میں سائیکلوں کے ڈھیر کی وجہ معیار ہے، روسی سائیکلیں یورپین معیار کے مطابق نہیں ہوتیں چنانچہ نارویجین اتھارٹی روسی سائیکل آگے لے جانے کی اجازت نہیں دیتی لہٰذا یہ انہیں سرحد پر پھینک جاتے ہیں، امریکی ریاست الاسکا اور روس کے درمیان بھی پانی کا چھوٹا سا چینل ہے، چینل کی دونوں سائیڈز سے فیری بھی چلتی ہے اور چھوٹے جہاز بھی، یہ بیس منٹ کا فاصلہ ہے لیکن دونوں کے درمیان چوبیس گھنٹے کا فرق ہے، آپ جوں ہی روس سے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں آپ چوبیس گھنٹے آگے چلے جاتے ہیں، دنیا میں جنگلات کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی روس میں ہے، دنیا کے 25فیصد درخت روس میں ہیں چنانچہ یہ پوری دنیا کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ دنیا کا 34فیصد میٹھا پانی بھی روس میں ہے، جھیل بیکال دنیا میں میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، دنیا کا سب سے بڑا دریا والگا بھی روس میں بہتا ہے، دنیا کے سب سے زیادہ دریا بھی روس میں ہیں ، اس ملک میں 36دریا بہتے ہیں، دنیا کا سرد ترین مقام اومیاکان بھی روس میں ہے، اومیا کان کا درجہ حرارت منفی 55ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، 1983ء میں اس کا درجہ حرارت منفی 89.2ڈگری سنٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، دوسرا سرد ترین مقام ویرخویانسک بھی روس میں ہے۔ویرخویانسک کا درجہ حرارت منفی 45ڈگری تک گر جاتا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ٹائونز میں زندگی چلتی رہتی ہے، ان دیہات تک صرف سردیوں میں پہنچا جا سکتا ہے، کیوں؟ کیوں کہ سردی میں دریا جم جاتے ہیں اور ان جمے ہوئے دریائوں پر ٹرک، بسیں اور گاڑیاں دوڑنے لگتی ہیں۔
دنیا کا گہرا ترین میٹرو سٹیشن بھی روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں ہے، اس کی گہرائی 86میٹر ہے، ماسکو کی زیر زمین ٹرین بھی زمین سے 82میٹر گہرائی تک جاتی ہے، یہ اوسطاً 40میٹر گہری ہے اور اس کے سٹیشن دیکھنے کے قابل ہیں۔ یہ شاہی محلات اور آرٹ کا نمونہ دکھائی دیتے ہیں، ماسکو کے زیر زمین ریلوے سے روزانہ 60لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں، روسی لوگ بہت خوب صورت اور سمارٹ ہیں، یہ لوگ مسکراتے نہیں ہیں، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی روس میں بچوں کو سکول میں نہ مسکرانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے لہٰذا آپ کو اگر روس میں کوئی شخص قہقہہ لگاتا ہوا نظر آئے تو آپ جان لیں یہ روسی نہیں یہ غیر ملکی ہے۔ یہ لوگ انگریزی جانتے ہیں اور نہ بولتے ہیں، ماسکو شہر میں فی کس آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ ارب پتی رہتے ہیں لیکن آپ کو اس کے باوجود ملک کے کسی حصے میں دولت کا وحشیانہ رقص نظر نہیں آتا، یہ بلا کے توہم پرست بھی ہیں، یہ نئے گھر میں پہلے بلی کو بھجواتے ہیں اور پھر خود داخل ہوتے ہیں، بلی اگر گھر میں داخل نہ ہو تو یہ گھر گرا دیتے ہیں یا پھر بیچ دیتے ہیں، یہ دولت مند ہونے کے لیے اپنے بائیں ہاتھ سے کتے کا پائوں رگڑتے ہیں اور پیٹر دی گریٹ کے مجسمے کے نیچے سکے پھینکتے ہیں۔
روس میں دلہا اور دلہن چرچ میں شادی کے بعد شادی کے لباس میں شہر کا چکر لگاتے ہیں، یہ لوگ آہستہ بولتے ہیں، مہمان نواز ہیں، ماسکو شہر میں صرف 80دن جبکہ سینٹ پیٹرز برگ میں 56دن سورج نکلتا ہے۔ پورے ملک میں سال کے باقی دن دھند، بادل اور بارش رہتی ہے۔ یہ لوگ اولاد کو ترسے ہوئے ہیں، حکومت دو بچے پیدا کرنے والے خاندان کو دس ہزار ڈالر کے برابر رقم انعام دیتی ہے، تین بچوں کے خاندان کو ’’ بگ فیملی‘‘ سمجھا جاتا ہے اور حکومت بگ فیملی کو وی آئی پی خاندان ڈکلیئر کر دیتی ہے، بگ فیملی کو ٹرانسپورٹ کی فری سروس، پارکنگ فیس کی معافی، تھیٹر کے مفت پاس اور سال میں دس پندرہ دنوں کے لیے چھٹیوں کی مفت سہولت دی جاتی ہے۔ والدین کسی بھی روسی ریاست میں کسی بھی تفریحی مقام پر مفت چھٹیاں گزار سکتے ہیں اور روس میں سائبیرین ٹرین کے نام سے ایک حیران کن ٹرین بھی چلتی ہے، یہ دنیا کا لمبا ترین ریلوے سفر ہے، یہ ٹرین آٹھ ٹائم زونز کو کراس کرتی ہے اور 87شہروں اور والگا دریا سمیت 16دریائوں کے اوپر سے گزرتی ہے، یہ بھی ایک حیران کن سفر ہے، آپ ٹرین میں بیٹھ کر سائبیریا کے برف ستانوں سے گزرتے ہیں اور فطرت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
روس میں سرخ رنگ خوب صورتی کی علامت ہے، یہ لوگ جس چیز سے محبت کرتے ہیں یہ اس کو سرخ رنگ کر دیتے ہیں، ریڈ سکوائر کو خوب صورتی کی وجہ سے ریڈ سکوائر کہا جاتا ہے تاہم یہ بھی درست ہے سکوائر کی زیادہ تر عمارتیں سرخ ہیں، لینن کا مقبرہ بھی ریڈ سکوائر میں ہے، لینن کا انتقال 21جنوری 1924ء کو ہوا تھا، حکومت نے انتقال کے بعد اس کی لاش حنوط کر کے شیشے کے تابوت میں رکھ دی۔ روزانہ سیکڑوں لوگ آتے ہیں اور قطار میں لگ کر بابائے انقلاب کی زیارت کرتے ہیں، فضا میں جانے والا پہلا خلا نورد یوری گاگارین بھی لینن کے قریب کریملن کے قبرستان میں دفن ہے، میوزیم میں ان دونوں کتوں ( فی میل) کی حنوط شدہ لاشیں موجود ہیں جو یوری گاگارین سے پہلے خلا میں بھجوائے گئے تھے۔ ان کے نام بیلکا اور سٹریلکا تھے اوریہ دونوں کام یابی سے واپس آگئے تھی، سٹریلکا نے بعد ازاں ایک بچے ( فی میل) کو جنم دیا جس کا نام پوشنکا رکھا گیا، روس نے امریکہ کو جلانے کے لیے پوشنکا امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بیگم جیکولین کینیڈی کو گفٹ کر دی، یہ جب بھونکتی تھی تو امریکیوں کو محسوس ہوتا تھا پورا روس ان کا مذاق اڑا رہا ہی ، لہٰذا امریکہ نے1969ء میں نیل آرمسٹرانگ کو چاند پر بھجوانے کا فیصلہ کر لیا۔
روس کے ایئر سپیس پروگرام نے دنیا کو بے شمار سہولتیں فراہم کیں۔ پیمپر اور نیپیز خلا نوردوں کے لیے ایجاد ہوئی تھیں، یہ آج دنیا بھر کے بچے استعمال کرتے ہیں، نوڈلز اور فوری تیار ہونے والی خوراک بھی خلا نوردوں کے لیے بنی تھی، ماڈرن ٹریک سوٹس، جی پی ایس، دانتوں کے بریسز کی تاریں، جہازوں میں استعمال ہونے والے کموڈز اور ٹیوبوں اور ٹرے میں اگائی جانے والی سبزیاں بھی خلا نوردوں کے لیے ایجاد ہوئی تھیں لیکن یہ آج ہم جیسے لوگ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک خلا نورد 10سال میں تیار ہوتا ہے۔ یہ لوگ حقیقتاً جان نثار ہوتے ہیں، یہ جانتے ہیں یہ شاید ہی واپس آ سکیں، لیکن یہ اس کے باوجود انسان کا فخر بن کر خلا کے سمندر میں اتر جاتے ہیں، سپیس میوزیم میں ان دونوں ریاضی دانوں کی تصویریں بھی لگی ہیں جن کی کیلکولیشن پر سفر کر کے انسان نے خلا میں قدم رکھا تھا اور پیچھے رہ گیا کریملن تو یہ صدیوں سے روس کے بادشاہوں اور انقلابی لیڈروں کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر چلا آ رہا ہے، روس کے موجودہ صدر ولادی میر پوتن بھی کریملن میں بیٹھے ہیں۔
گہرائی میں ماسکو کا عظیم شہر بکھرا ہے، یہ وہ شہر ہے جس کے بارے میں ہٹلر نے کہا تھا ’’ جس نے ماسکو فتح کر لیا گویا اس نے پوری دنیا فتح کر لی، وہ فاتح اعظم بن گیا‘‘، لیکن آپ کمال دیکھیے روسیوں نے آج تک کسی شخص کو فاتح اعظم نہیں بننے دیا، ہٹلر یہ خواب دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہو گیا مگر ماسکو اپنی جگہ قائم رہا۔
ایک ہم ہیں جو آج تک قوم نہ بن سکے اور ملک کو نوچ نوچ کر کھا گئے ہیں۔
بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ:
شور ہے ہو گئے دینا سے مسلم نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود