آزاد عدلیہ اور شہریوں کی آزادیاں
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
کسی معاشرے کی تشکیل میں عدلیہ اہم کردار ادا کرتی ہے جن معاشروں میں عدلیہ آزاد ہو وہاں کے رہنے والوں کو بہت کم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزاد عدلیہ کا بڑا فائدہ جمہوریت کو ہوتا ہے عدلیہ جتنی آزاد ہوگی جمہوری نظام اتنا مضبوط ہو گا پھر ایسے معاشروں کی جمہوریت کو خدشات کم لاحق ہوتے ہیں۔ انگریز کی غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانان ہند کو امید تھی وہ ایک ایسی ریاست میں جا رہے ہیں جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی ہے جہاں جانے کے بعد وہ سکھ کا سانس لیں گے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی حیات تک لوگ پر امید تھے انہوں نے ایک ایسی ریاست میں ہجرت کی جہاں
ان کی زندگیاں محفوظ اور انصاف میسر ہوگا بدقسمتی سے یہ دونوں خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔1973ء مملکت کا آئین بنانے میں سیاسی اور مذہبی تمام جماعتوں کا اتفاق رائے تھا۔ یہ بات درست ہے آئین میں ترامیم وقت کی ضرورت کے مطابق ترمیم لائی جا سکتی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں اس میں ایسی ترامیم کی جائیں جس سے نظام عدل کو خطرات لاحق ہوں۔1985ء کے بعد ملکی سیاست میں کچھ ایسی تبدیلی آئی جس کے بعد یہاں کے رہنے والوں کے آزادی اور حصول انصاف کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ حالیہ آئین میں ترامیم اور اب انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کی خبروں سے عوام کو انصاف کی فراہمی اور ایک آزاد معاشرے میں رہنے کے خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔ پہلے ہم آئین میں ترامیم کی بات کرتے ہیں۔ آئین میں ترامیم کے مسودے کو پہلے مخفی رکھا گیا جب سیاسی جماعتوں اور خصوصا جے یو آئی نے شور و غوغا کیا تو انہیں مسودے دکھایا گیا۔ آئینی ترامیم کے مسودے میں جن شقوں کو رکھا گیا، کی جے یو آئی اور پی ٹی آئی نے بھر پور مخالفت کی، ورنہ عوام کی آزادی سلب ہوجاتی البتہ حکومت چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بدلنے میں کامیاب ہو گئی جس کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا عوام کو حصول انصاف میں جن مشکلات کا سامنا ہو گا اس کا آنے والے وقتوں میں سب کو علم ہو جائے گا۔ درحقیقت آئین میں ترامیم کو جو مسودہ مخفی رکھا گیا اس میں بعض ترامیم ایسی تھیں ان پر اتفاق رائے ہو جاتا تو ملک میں توفان برپا ہو جاتا۔ اقتدار کی ہوس میں سیاست دان جمہوریت اور عوام کے حقوق کو بھول جاتے ہیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے آئینی ترامیم کے معاملے میں ثابت کر دیا انہیں ہر قیمت پر اقتدار کا حصول عزیز ہے۔ ججوں کی تقرری کرنے والی کمیٹی میں حکومتی ارکان کی زیادہ تعداد اس بات کا بین ثبوت ہے عدلیہ میں من پسند ججوں کی آمد کا راستہ کھل گیا ہے۔ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا آئینی مسودے پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث فوجی عدالتوں کے قیام کا راستہ وقتی طور پر رک گیا ہے لیکن حکومت نے اپنے مخالفین کو پابند سلاسل رکھنے کا ایک نیا طریقہ نکال لیا ہے جس کے بعد انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم لائی جارہی ہیں جس میں کسی بھی شہری کو کوئی عذر بنا کر حراست میں لیا جا سکے گا۔ ترمیم میں زیر حراست شہری کیخلاف جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جس میں حکومتی ارکان شامل ہوں گے جس کے بعد زیر حراست شہری کو جیل میں رکھنے یا رہائی دینے کا فیصلہ ہوگا۔ آئینی ترامیم تک جے یو آئی کے آئین کے منافی ترامیم کے خلاف بہت حد تک بندھ باندھے رکھا حکومت نے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کی نئی راہ نکال لی۔ باوجود اس کے جے یو آئی اور پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی حکومت عدالت عظمیٰ میں من پسند ججوں کی تقرری کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے لئے نت نئی ترامیم کے خلاف ایک ہی راستہ ہے وہ وکلاء سے مل کر آئینی ترامیم اور دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کریں۔ جمہوریت کی دعویٰ دار پیپلز پارٹی اور آمریت کی پیداوار پی ایم ایل نون پی ٹی آئی کو جلسے اور احتجاج کرنے کی اجازت نہ دے کر ثابت کر دیا ہے انہیں اقتدار کے سوا عوام اور جمہوریت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ پنجاب کی جیلیں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے بھری ہیں۔ راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں گنجائش نہ ہونے کے باعث سینکڑوں پی ٹی آئی ورکرز کو اٹک، جہلم اور دوسری جیلوں میں بھیجا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم لانے کا واحد مقصد پی ٹی آئی کے کارکنوں کو حراست میں رکھنا مقصود ہے ورنہ کسی عام شہری کو حراست میں لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کسی وقت پیپلز پارٹی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعت تھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ جماعت جمہوریت کی بجائے ذاتی مفادات والی جماعت بن گئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پی ٹی آئی جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کے لئے ایک بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جس کے بانی کے جیل میں رہنے کے باوجود کارکن سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ وکلا برادری جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی بڑی دعویٰ دار ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف وکلاء او ر سول سوسائٹی نے باہم مل کر تحریک چلائی لیکن اب وکلا ء برادری منقسم ہو چکی ہے لیکن وکلاء برادری کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق کسی بھی شخص پر ہو سکے گا لہذا آنے والے وقت کے لئے انہیں بھی تیار رہنا چاہیے۔ ملک اور عوام کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی انہیں ایسے سیاست دانوں سے واسطہ پڑا ہے جن کی سیاست کا مقصد اقتدار کا حصول اور بیرون ملک اثاثے بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ شائد یہی وجہ ہے عوام کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے یہ علیحدہ بات ہے تمام شہری جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں شریک نہیں ہوتے تاہم ان کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ بہرکیف آنے والا وقت عوام اور خصوصا پی ٹی آئی کے لئے مشکل ترین ہو سکتا ہے لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی آج جو ترامیم لائی جا رہی ہیں مستقبل قریب میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے گلے کا پھندا ثابت ہوں گی۔