کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے
شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
انسان کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانا اور خوب سے خوب تر کی تلاش کرنا اس کی گھٹی میں پڑا ہے اگرچہ اسے کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ’’ انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے ‘‘، کتاب ہدایت کہتی ہے’’ بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے ‘‘۔
کیسی عجیب بات ہے کہ وہ کمزور ہے، کم ہمت ہے، جذباتی ہے مگر ساتھ میں مشقت کا خوگر بھی ہے۔ انسان کو اس حقیقت کا بھی بخوبی پتہ ہے کہ اس کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔ اسے اپنی حیثیت کا بھی پتہ ہے اور اپنی طاقت کا بھی ۔ ایسے میں وہ کھلونوں سے کب بہل سکتا تھا ؟، انسان نے خلافت کا ارضی کا تاج سر پر رکھا تو اس میں عقابی روح نے جنم لیا اور یوں اسے اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی ۔
شب اسراء یہ راز کھلا ہے ہم پر
آسمانوں سے گزرتا ہے زمیں کا رستہ
اسے پہاڑ قامت میں بلند دکھے تو اس نے کوہ پیمائی کے ذریعے انھیں اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔ راہ کی دیوار نظر آئے تو سرنگیں کھود کر اس نے انھیں سر نگوں کر ڈالا۔ سفر کرنا اسے اچھا لگا تو اس نے دھرتی کے سینے پر سڑکیں سجا کر راستوں کو ہموار کرنا شروع کر دیا اور فاصلوں کو رام کر لیا۔ پرندے آسمانوں پر اڑتے دکھائی دئیے تو اس نے بھی اڑان بھری اور جہاز اور ہیلی کاپٹر بنا کر آسمان کی وسعتوں میں گم ہو گیا ۔ زمین کا دامن اسے تنگ پڑنے لگا تو وہ چاند پر جا پہنچا ۔ اس نے مریخ پر کمندیں ڈال لیں۔ سمندروں کی بے انت ذخیروں نے اس کو کھلا چیلنج دیا تو اس نے سمندر کی پہنائیوں میں اتر کر اس میں چھپے قدرت کے راز کھوجنے شروع کر دئیے۔ ایسا اس لیے تھا کہ وہ اپنی قدر قیمت جان گیا تھا۔ سو وہ خود کو سب سے بڑھ کر سمجھنے لگا تھا
بقول اقبال:
میری شان سے بحر و بر کانپتا ہے
شجر کانپتا ہے حجر کانپتا ہے
میرے ذوق تسخیر فطرت کے آگے
عناصر کا قلب و جگر کانپتا ہے
یہ انسان ہی ہے جو نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کے سیماب فطرت اسے ہر وقت کچھ انوکھا کرنے پر اکساتی رہتی ہے۔ وہ اپنی اس فطرت سے مجبور ہو کر نت نئے تجربے کرتا اور ایجاد و دریافت کرتا رہتا ہے، اس نے بجلی کو تسخیر کر کے اپنے حق میں رام کر لیا ہے۔ دیو ہیکل مشینیں، ریلوے گاڑیاں، خلائی اسٹیشن، ہوائی جہاز سپر کمپیوٹر روبوٹس اور نہ جانے کیا کچھ اس نے ایجاد کر ڈالا۔ یہ سب اس کے زور بازو کا کمال اور اس کے زرخیز ذہن کا اعجاز ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ عناصر اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ اس نے فطرت کے چھپے راز افشا کر کے سب پر اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹُوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
یہی انسان اگر کچھ نہ بھی کرے تو کم از کم اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے تو جان توڑ محنت کرتا ہی ہے۔ باوجود اس کے کہ رزاق نے رزق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے ، انسان اپنی اور اپنے گھر والوں کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت کام میں لگا ہوا ہے۔ سکون کی تلاش اس کا سکون غارت ہو چلا ہے۔ اس کی ہمتیں پیٹ تک محدود ہیں۔ روٹی کے آگے اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مفلسی کا خوب اسے حرام خوری کی طرف کھینچے چلا جاتا ہے۔ خواہش کا بے لگام گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے اور انسان اس کے پیچھے اس حالت میں گھسٹتا چلا جاتا ہے کہ اس کے پائوں لگام میں پھنس چکے ہیں ۔
ایک لمحے کو تک جائیے اور سوچیے کہ شعور کے اس عہد میں ظلمت کا شور انتہا پر کیوں ہے؟ انسان کو انسان سے اتنا خطرہ کیوں ہے کہ وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔ اتنا گولہ بارود بن چکے ہیں کہ یہ دنیا کئی بار تباہ ہو سکتی ہے۔ ہم مسلمان ہر طرف سے ابتلا میں مبتلا ہیں۔ فلسطین میں چالیس ہزار مسلمان شہید ہو چکے۔ صیہونی درندہ بے قابو ہو چکا ہے۔ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کو راستے سے ہٹا کر وہ شیطانی قہقہے لگا رہا ہے، مظلوم مسلمانوں کا منہ چڑا رہا ہے ۔ اب اس کی توپوں کا رخ لبنان کی طرف ہے۔ وہ اس پر آگ و آہن کی بارش کر رہا ہے۔ وہ ایران کو انھیں دکھا رہا ہے ۔ ( سعودی عرب نے جو درجنوں ملکوں کے اشتراک سے جو فوج تیار کی تھی ، جانے کہاں رہتی ہے ؟)۔ جہان پاکستان کی خبر کہتی ہے کہ غزہ، لبنان میں عورتوں اور بچوں سمیت مزید سیکڑوں افراد جام شہادت نوش فرما گئے ہیں۔ ادھر یہ ظلم ہو رہا ہے اور ادھر مسلمان ہاتھ بلند کیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ نماز جمعہ کے خطباء حضرات رقت آمیز دعا کروانا نہیں بھولتے۔ ہم سب اونچی آواز میں آمین کہہ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ ان کے ہاتھ میں سوائے دعا کے کچھ ہے بھی تو نہیں۔ جن کے پاس اختیار ہے ان کے ہاتھوں میں کشکول ہیں یا شراب کے جام۔ ستاون اسلامی ممالک یوں چپ ہیں جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ اور تو اور ترکی بھی خاموش ہے۔ لے دے کے ایک ایران ہے جو کہ کبھی سر اٹھا لیتا ہے۔
کہتے ہیں کوئوں کے کوسنے سے ڈھور نہیں مرا کرتے۔
سو ہماری بد دعائوں سے اسرائیل کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ ہمارے مسلمان ممالک کی فوجیں بھڑوں کے اس لشکر کی طرح ہیں جن کا ڈنگ نکال لیا گیا ہے۔ اس سانپ کی طرح ہیں جن کے دانت توڑ دئیے گئے ہیں، ہم مسلمان ایک سو پچاس کروڑ سے زیادہ ہیں جب کہ اسرائیل کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم ہے۔ دنیا کا ہر چوتھا انسان مسلمان ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ہم مٹھی بھر یہودیوں سے مار کھا رہے ہیں۔
کیوں کہ
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
ہم ہر کام وقت بازو سے کرتے ہیں ہاں مگر ہمارے پاس اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے لیے صرف دعائیں ہیں
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے
نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم و مغفور کیا اچھے وقت پہ یاد آئے ہیں ۔ ان کے اس کلام میں ہمارے اس مسئلے کا حل موجود ہے
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیش نظر سنتِ سجادِ ولی ہے
اک برقِ بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ مری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
غارت گری اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول ، نہ غنچہ ، نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں!
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے!
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو! کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے!
ہم راہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے