ColumnTajamul Hussain Hashmi

صدر ایوب کی آخری ریکارڈنگ

تحریر :تجمّل حسین ہاشمی
مغربی اور مشرقی پاکستان کے شہروں، گلیاں میں صدر جنرل ایوب خان کے مخالف نعرے بلند تھے۔ ان نعروں کو لکھنا مناسب نہیں ہے کیونکہ میں صدر ایوب خان کی قابلیت کا معترف ہوں۔ پاکستان کے تمام بڑے منصوبے ایوب خان کے دور میں شروع ہوئے، گدئوں کی طرح ان منصوبوں کو نوچا گیا ہے۔ صدر ایوب خان نے اقتدار سے الگ ہونے کا سوچ لیا تھا ۔ 13مارچ 1962ء کو کراچی سٹاک ایکسچینج بند ہو چکا تھی۔ ملک میں بد امنی اور افراتفری پھیل چکی تھی۔ صدر ایوب نے کابینہ کا اجلاس بلایا جو صدر کا آخری اجلاس ثابت ہوا۔ اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ملکی صورتحال کے پیش نظر مارشل کا نفاذ لازمی سمجھا گیا۔ جنرل یحییٰ خان سے مارشل لاء کی تجویز پر رائے طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر کنی کترا لی کہ وہ اس بارے میں صدر ایوب سے الگ بات کریں گے۔ جنرل یحییٰ خان کی خواہش کے مطابق عمل ہوا۔ ’’ مرکزی، صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں، گورنروں کو ان کی کابینہ سمت موقوف کر دیا جائے اور 1962ء کے آئین کو منسوخ کر دیا جائے کی شرط پر مارشل لا نفاذ ہو گا‘‘۔ صدر ایوب خان نے بند کمرے میں خاموشی سے ساری شرائط منظور کر لیں۔ اسی دوران پاکستان میں متعین امریکی سفیر خصوصی پرواز پر امریکہ چلے گئے۔ جبکہ اس دوران ملکی حالات کافی گرم تھے۔ قدرت اللّہ شہاب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اسی رات ایک سفارتی تقریب میں چند انٹر نیشنل کالم نگار سائیڈ پر کھڑے گپیں لگا رہے تھے۔ وہاں کھڑے ایک انگریز صحافی سے میں نے پوچھا کہ شدید بحران کے دوران یہ امریکی سفیر واشنگٹن کیا کرنے گیا ہے؟، اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ کیوں نہیں منتقلی اقتدار پر عمل درآمد سے پہلے سے واشنگٹن سے ’’ او کے‘‘ کرنا بھی لازم ہے۔ جناب قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ معلوم نہیں اس کا یہ جواب فکاہیہ تھا یا سنجیدہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکی سفیر کے واپس آتے ہی 25مارچ کو صدارت کی کرسی بدل گئی، اسی روز ایوان صدر میں ایوب خان نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ ریکارڈنگ کے دوران جنرل یحییٰ خان منہ بنا کر افسردہ نظر آئے۔ جب ریکارڈنگ کی ٹیپ ان کے ہاتھ لگ گئی تو ان کا چہرہ خوشی تمتما اٹھا۔ اب آتے ہیں پاکستان کے موجودہ حالات پر جو اس وقت معاشی، سیاسی اور معاشرتی گھٹن کا شکار ہیں۔ کسی سائیڈ سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میسر نہیں۔ آج پی ٹی آئی بانی کے حق میں طاقتور ملک آواز اٹھا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد آنے کے بعد امریکہ کی مخالفت میں ایک مضبوط بیانیہ بنایا گیا۔ پورے ملک میں ایک فضا بنا دی گئی تھی کہ ہم غلام نہیں ہیں، ہم برابری پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، کاغذ یا خط ھی لہرا گیا لیکن آج وہ تمام بیانئے زمین دوز ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر ملکی معیشت پر گہرے اثرات مراتب ہوئے۔ پی ڈی ایم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، ملک کے ڈیفالٹ ہونے تک کے اعلان چلا دئیے جو ضروری نہیں تھے۔ 25کروڑ عوام کو ایسے سیاسی بیانیوں پر متحرک نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان سمیت یہاں سب کا سیاسی پیٹرین ایک جیسا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان گلوبلی مشہور ہیں، لیکن میاں نواز شریف زیادہ عرصہ حکمران رہے ہیں۔ جلا وطنی کے دور میں ان کو بھی طاقتور ملکوں کی ہمدردی حاصل رہی ہے۔ ماضی حال میں ایسی ہمدردیاں سب کو میسر رہیں۔ یقینا عمران خان کو بھی سمجھ آ گئی ہو گی کہ طاقتور ممالک مخالف بیانیہ عوام کے خون کو گرما سکتا ہے لیکن اقتدار کی لکیر چھین لیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button