ColumnRoshan Lal

سموگ کے زہر کی سالانہ آمد

روشن لعل
پاکستان کا دل کہے جانے والے شہر لاہور میں ’’ سموگ‘‘ کی سالانہ آمد کوئی نئی بات نہیں ہے مگر حکومت پنجاب کے ترجمانوں کی طرف سے ان دنوں جو بیانات سامنے آ رہے ہیں ان سے ایسے لگتا ہے جیسے سموگ یہاں پہلی مرتبہ ظاہر ہوا ہے۔ سموگ لاہور میں اس وقت بھی تھا جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے، سموگ یہاں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں بھی ظاہر ہوتا رہا ، لاہور میں سموگ کا تدارک، نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے دور میں بھی نہ ہو سکا اور اہل لاہور، مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی سموگ کے زہر میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔
سموگ کا لفظ دنیا میں پہلی مرتبہ سال 1900ء میں دھوئیں اور دھند کے ملاپ سے بننے والی گہر کے لیے استعمال کیا گیا تھا جبکہ پاکستان میں اکثر لوگ سموگ کے نام سے اس وقت آشنا ہوئے جب عالمی میڈیا نے 2016ء میں سموگ کے سبب بھارتی دارالحکومت دہلی کو دنیا کا آلودہ ترین شہر کہا۔ اس کے بعد جب سال 2017ء کے دوران دہلی کو دوبار سموگ کی وجہ سے دنیا کا آلودہ ترین شہرقرار دیا گیا تو اسی برس یہ انکشاف بھی ہوا کہ سموگ کی زد میں موجود لاہور کا شمار بھی دہلی کی طرح دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ لاہور میں سموگ قبل ازیں بھی وسعت پذیر تھا مگر2017 ء میں سوئٹزر لینڈ کی ایئر ٹیکنالوجی کمپنی نے صرف اس کی یہاں موجودگی کا انکشاف کیا۔ یہاں یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ پنجاب میں 1975ء سے ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کرنے کے لیے سرکار ی سطح پر کام ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کرنے کے تسلسل میں 1987ء کے دوران یہاں پہلے سے موجود محکموں میں ایک ایجنسی بنائی گئی جسے 1996ء میں اینوائرمینٹل پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے نام سے الگ محکمے کا درجہ دیا گیا۔ ہماری حکومتیں اور سرکاری ادارے تحفظ ماحول اور سموگ کو کنٹرول کرنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور میں سموگ کے ظہور کی نشاندہی اینوائرمینٹل پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ کی ایئر ٹیکنالوجی کمپنی نے کی تھی۔
شہر لاہور میں2017ء کے بعد سے اب تک ہر سال زہریلے سموگ کا ظہور ہو رہا ہے۔ گزشتہ 9برس کے دوران پنجاب میں شہباز شریف سے مریم نواز تک جتنے بھی وزیر اعلیٰ آئے انہوں نے ہر سال اکتوبر میں سموگ کی آمد کے موقع پر اس قسم کے دعوے کیے کہ وہ انتہائی سنجیدگی سے اس کے تدارک کے لیے کوششیں کر رہے ہیں ۔ اس قسم کے دعووں کے باوجود ہر برس سموگ یہاں پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہوا۔ سموگ کے تدارک کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کے دعویدار حکمران اس معاملے میں کس قدر غیر سنجیدہ ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اکتوبر 2021ء کے دوران جب سموگ کے زہر آلود اثرات میں روزبروز اضافہ ہونے لگا تو اس وقت تحفظ ماحول پنجاب کے وزیر بائو محمد رضوان نے کسی میڈیا پرسن کے سوال پوچھنے پر یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا کہ لاہور یا پنجاب میں سموگ نام کی کوئی شے موجود ہے ۔ یہ توبھلا ہو لاہور ہائیکورٹ کا کہ جب وہاں سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ ہدایت نامہ جاری ہوا کہ وہ جلد ازجلد ماحولیاتی تحفظ کونسل کا اجلاس بلاکر سموگ کے تدارک کا بندوبست کریں تو پھر وزیر موصوف اور ان کا محکمہ دکھاوے کی کارروائیاں کرنے کے لیے حر کت میں آیا۔
مختلف حکمرانوں کے اس رویے کو المیے کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں سموگ کے خاتمہ کے لیے گزشتہ نو برس کے دوران دکھاوے کی کارروائیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکا۔ فضا کو زہر آلود کرنے والے سموگ کا خاتمہ کیسے سنجیدہ اقدامات سے ممکن ہو سکتا ہے اس کی مثال چین قائم کر چکا ہے ۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر چین کے شہر بیجنگ میں انتہائی تیزی کے ساتھ سموگ کے مضر اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ سموگ بیجنگ میں جتنی تیزی سے ظاہر ہوا اتنی ہی تیزی سے اس کے تدارک کے انتظامات بھی کیے گئے۔ سموگ کے خاتمہ کی کوششوں کے دوران چینی ماہرین نے سب سے پہلے سموگ کے ظہور اور اس میں اضافہ کی وجوہات پر غور کیا۔ چینی ماہرین نے اپنے کام کے دوران یہ اخذ کیا کہ جب کسی شہر میں صنعتی ترقی کی وجہ سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں تو اس کی جی ڈی پی بڑھنے کے ساتھ نہ صرف آبادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہاں موٹر گاڑیوں کی تعداد اور آمد ورفت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جی ڈی پی، آبادی اور گاڑیوں میں اضافے کے برعکس جو اشیا کم ہوتی ہیں وہ وہاں کی زیر کاشت زمین ، اس پر موجود درخت اور دیگر ماحول دوست اجزا ہوتے ہیں۔ ماحول دوست اجزا میں کمی اور ماحول کو آلودہ کرنے والے عوامل میں اضافے کے بعد شہر میں سموگ کا ظاہر ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ چین کے شہر بیجنگ میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ بیجنگ میں ہونیوالی صنعتی ترقی کی وجہ سے بیس برس کے دوران وہاں جی ڈی پی میں 10.78فیصد، آبادی میں74 فیصد اور شہر میں چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں 335فیصد اضافہ ہوا ۔ ان ماحول دشمن اجزا میں اضافہ کے بعد بیجنگ کی فضا میں ہر طرف زہر آلود سموگ نظر آنے لگا۔ جو سموگ بیجنگ میں ہونے والی تیز رفتار صنعتی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوا اسے سائنسی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے بہترین انتظامات کے تحت خطرناک حد سے نیچے لایا گیا۔ اس کام کے لیے حکومتی ایما پر سائنسدانوں نے تو صرف پالیسیاں بنائیں مگر ان پالیسیوں پر عمل کے دوران حکومتی انتظامیہ، صنعتکاروں اور عام شہریوں نے اس حد تک تعاون کیا کہ جو سموگ بیجنگ میں بیس برس کے دوران پھیلا وہ صرف پانچ برسوں میں بتدریج خطرناک حد سے نیچے چلا گیا۔ ہمارے حکمران اگر سموگ کا تدارک کرنے میں سنجیدہ ہوتے تو لاہور میں رئیل اسٹیٹ کے سرمایہ کاروں کے ہاتھوں یرغمال بن کر روڈا جیسے ماحول دشمن منصوبوں کا آغاز نہ کرتے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے سموگ کے خاتمہ کے لیے یہ کہتے ہوئے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بگھونت مان کو خط لکھنے کا اعلان کیا ہے کہ وہ ان سے مل کر سموگ کے خاتمہ کے لیے اقدامات کریں گی ۔ کاش کہ مریم نواز کے مشیروں کو کوئی یہ بتائے کہ بھگونت مان بھارتی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بھارتی لوک سبھا کے رکن بھی رہ چکے ۔ بھارت کی مرکزی حکومت بھارتی پنجاب سے سموگ کی خاتمہ لیے جو اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتی ہے بگھونت مان نے لوک سبھا میں تقریر کے دوران ان اقدامات پر عمل درآمد سے انکارکیا تھا۔ بگھونت مان کی لوک سبھا میں کی گئی تقریر کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف یہ کہا جاسکتا ہے انہوں نے سموگ کے خاتمہ کے لیے مریم نواز کو اگر کوئی مثبت پیغام دے بھی دیا تو وہ رسمی کاروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ لہذا، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اگر لاہور سے سموگ کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں رسمی کارروائیوں کی بجائے دیگر ممکنہ اقدامات پر توجہ دینی ہو گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button