پی آئی اے کی متوقع قیمت 85 ارب روپے مگر 10 ارب روپے کی صرف ایک بولی، ایسا کیوں؟
خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے 10 ارب روپے میں اسے خریدنے کی پیشکش کی گئی ہے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ساٹھ فیصد حصص کی فروخت کے لیے بولی کھولی گئی۔ حکومت کو محض ایک پارٹی ’بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم‘ کی جانب سے بولی وصول ہوئی ہے۔
ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی بلیو ورلڈ سٹی نے 85 ارب روپے کی کم از کم متوقع قیمت (ریفرنس پرائس) کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی بولی جمع کرائی، یعنی اس کا تقریباً 12 فیصد حصہ۔
خیال رہے کہ پی آئی اے ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جس کے سرمائے کا تقریباً 96 فیصد حصہ حکومت کے پاس ہے۔
پی آئی اے مسلسل کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے اور اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔
گذشتہ ادوار میں انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے بہتری لانے کی تمام تر کوششوں کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کی کئی کوششیں بھی ناکام ہوئی ہیں۔
بولی کے لیے اس تقریب کے دوران بلیو ورلڈ سٹی کے سربراہ سعد نذیر کا کہنا ہے کہ ’ہم حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں اگر وہ ہماری بولی قبول نہیں کرتے۔‘
سعد نذیر نے روئٹرز کو بتایا کہ بولی بڑھانے کا کوئی کاروباری جواز پیدا نہیں ہوتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کابینہ ہماری پیشکش پر مشاورت کرے گی۔ اگر یہ منظور نہیں ہوتی اور وہ ہماری پیشکش قبول نہیں کرتے تو ہم اپنی خود کی ایئر لائن شروع کریں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے 85 ارب روپے کی متوقع قیمت درست نہیں کیونکہ پی آئی اے شدید خسارے سے متاثرہ ہے۔
بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے پی آئی اے کو خریدنے کے لیے 10 ارب کی بولی کا جائزہ پاکستان کی وفاقی کابینہ لے گی۔ یعنی یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ آیا اس بولی کو منظور یا مسترد کیا جائے گا۔
نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر چھ بولی دہندگان کو اہل قرار دیا تھا تاہم ان میں سے پانچ اس عمل سے دور رہے۔
حکومت نے ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ، پاک ایتھنول پرائیویٹ اور بلیو ورلڈ سٹی کو قومی ایئرلائنز میں اکثریتی حصص کے لیے شارٹ لسٹ کیا تھا۔
بولی میں شامل نہ ہونے والے تین گروپس کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ انھیں مستقبل میں حکومت کے اس معاہدے پر پورا اترنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات ہیں۔
ٹاپ لائن سکیورٹیز کے سربراہ محمد سہیل نے روئٹرز کو بتایا کہ ریفرنس پرائس اور پیشکش میں اتنے فرق کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے پر غور کرنا ہوگا۔
نجکاری کمیشن کے سابق چیئرمین محمد زبیر نے بتایا کہ بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے دی جانے والی بولی ریفرنس پرائس سے بہت کم ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی کمپنی نے اس میں حصہ لیا۔
انھوں نے بتایا کہ دوسری کمپنیوں کی جانب سے بولی میں حصہ نہ لینے کی وجہ ایک تو کم وقت کا دیا جانا تھا تو دوسری طرف پی آئی اے کے وہ سات ہزار سے زائد ملازمین ہیں، جن کو لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
محمد زبیر نے کہا کہ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی غیر ملکی کمپنی نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
زبیر نے بتایا کہ پی آئی اے کا ایک ہفتے کا ریوینیو ہی دس ارب روپے بنتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس پر صحیح طریقے سے کام نہیں کیا گیا۔ ’ابھی تک ان شرائط کا نہیں پتا کہ اگر یہ بولی کم ہے تو کیا آ گے جا کر اس میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔
دوسری جانب ایوی ایشن امور کے ماہر افسر ملک کے مطابق یہ بولی بھی زیادہ ہے کیونکہ پی آئی اے ایسا ادارہ ہے جس پر حکومت کی جانب سے 650 ارب روپے کا قرضہ اپنے ذمے لینے کے باوجود ابھی بھی 200 ارب روپے کا قرض باقی ہے۔
ماضی میں پی آئی اے کے شعبہ مارکیٹنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سربراہ رہنے والے ارشاد غنی نے بی بی سی کو بتایا کہ کوئی بھی اتنی بڑی رقم دے کر ایک ایسے اکاؤنٹ سے شروعات نہیں کرے گا جو پہلے ہی منفی میں چل رہا ہو بلکہ اس کی بجائے وہ اتنے پیسوں میں نئی ایئر لائن بنا لے گا۔
بلیو ورلڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کو اس بولی سے یہ فائدہ ہو گا کہ ان کو نیا سیٹ اپ نہیں لگانا پڑے گا کیونکہ یہ ریئل اسٹیٹ کمپنی ہے اور نئے سرے سے ایئرلائن شروع اور اسے آپریشنل کرتے ہوئے دو سال تو کم از کم لگ جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جو بھی پی آئی اے کو خریدے گا، وہ دراصل پیسے دے کر بخار لے رہا ہے۔‘
بلیو ورلڈ کے چیف ایگزیکٹو کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے ارشادغنی نے بتایا کہ ’انھوں (بلیو ورلڈ سٹی کے سربراہ سعد نذیر) نے کہا تھا کہ وہ پی آئی اے کے تمام معاملات کی ذمہ داری لیں گے لیکن دیکھا جائے تو وہ صرف 10 ارب روپے میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی ذمہ داری لینے کی بات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’صرف پینشن ٹرسٹ فنڈ کی رقم 40 ارب بنتی ہے جو پی آئی اے نے اپنے روزمرہ کے خرچے پورے کرنے کے لیے استعمال کر لی۔ پی آئی اے پر فیول، پینشن فنڈ اور پراویڈنٹ فنڈ (پی ایف) کی مد میں بہت زیادہ ادھار بھی ہے۔‘
ارشادغنی نے مزید کہا کہ تاہم وفاقی کابینہ کو اس بولی کو قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آج کے دور میں 10 ارب کچھ بھی نہیں۔