Column

طلاقوں کی تشویش ناک شرح

سی ایم رضوان
گزشتہ روز مصر میں شادی ٹوٹنے کا ایک حیران کن واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں تین برس تک چلنے والی شادی کا اختتام ایک ایسی عجیب وجہ سے ہوا کہ سننے والوں کو یقین نہ آیا۔ عرب میڈیا کے مطابق شادی کے تین برس گزرنے اور تین بچوں کی پیدائش کے بعد شوہر اور بیوی کو اتفاقاً معلوم ہوا کہ ان کی شادی کالعدم ہے کیونکہ 30سالہ شوہر نے اپنی رضاعی بھتیجی سے شادی کر لی تھی۔ رپورٹ کے مطابق محمود نامی شوہر کی بیوی اس کے ماموں کی بیٹی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے دونوں کو یہ جان کر شدید جھٹکا لگا کہ ان کی شادی جائز نہیں اور انہیں اپنا نکاح فسخ کر دینا چاہیے۔ واضح رہے کہ محمود کے ماموں ( اس کی بیوی کے والد) نے بچپن میں ایک قابل ذکر عرصے تک محمود کی والدہ کا دودھ پیا تھا۔ اس طرح وہ محمود کا رضاعی بھائی بن گیا۔ لہٰذا محمود اپنی بیوی کا رضاعی چچا بن گیا۔ مصر کے مشرقی صوبے میں سرکاری خاتون نکاح خواں امل سلیمان نے ’’ العربیہ‘‘ کو دیئے گئے بیان میں کہا کہ یہ مصر میں طلاق کی عجیب و نادر ترین صورتوں میں سے ایک ہے، جب ایک خاندانی بیٹھک میں اتفاقاً یہ معلوم ہوا کہ یہ شادی کالعدم ہے۔ تین برس ساتھ گزارنے اور تین بچوں کی پیدائش کے بعد شوہر اور بیوی دونوں کے لئے یہ انتہائی مشکل معاملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ دار الافتاء سے رجوع کرنے پر یہ تصدیق ہو گئی کہ ان کی شادی کالعدم ہے۔ اس لئے کہ شوہر اپنی بیوی کا رضاعی چچا ہے اور ایسی صورت میں شادی جاری نہیں رہ سکتی۔ بچوں کی شرعی حیثیت کے حوالے سے خاتون نکاح خواں نے تصدیق کی کہ شرعاً یہ اپنے باپ سے ہی منسوب ہوں گے تاہم آئندہ کے لئے یہ ازدواجی تعلق ختم کرنا واجب ہے۔ پاکستان جیسے اسلامی قدروں کے حامل معاشرے میں گو کہ ایسے واقعات سرے سے ہوتے ہی نہیں لیکن پچھلے تین عشروں سے پاکستان میں طلاققوں کی شرح میں لگاتار اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ زیادہ تر جوڑوں میں طلاقوں کی نوعیت یہ ہے کہ خواتین خود خلع حاصل کر رہی ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام لوگوں میں برداشت کی کمی اور اپنی خواہشات کو سب سے مقدم سمجھنے کی وجہ سے طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سماجی رویوں میں ناہمواری اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ریکارڈ کے مطابق، سال 2018کے دوران صرف اسلام آباد کے شہری علاقوں میں 779طلاقیں رجسٹر ہوئیں، جن میں سے 316خلع کے کیس تھے، جن میں خواتین نے عدالتوں سے ڈگری حاصل کی اور پھر ثالثی کونسل میں کیس آئے لیکن یہاں بھی میاں بیوی کا آپس میں اتفاق نہ ہو سکا اور بالآخر طلاقیں ہو گئیں جبکہ اسی سال 427مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاقیں دیں۔ 2019ء کے پہلے 4ماہ کے دوران وفاقی دارالحکومت میں طلاق کے 269کیس رجسٹر ہوئے جن میں سے 98 خواتین نے خلع لے لیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طلاق کی شرح ’’ ارینجڈ میرج ‘‘ کے مقابلہ میں ’’ لو میرج‘‘ میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ جذباتی فیصلے کے بعد زندگی کی تلخ اور مشکل حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوتا ہے جو کہ ایک مشکل امر ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شادی سے پہلے ’ لو میرج‘ کے لئے لڑکا اور لڑکی کی ملاقاتیں بہت مختصر ہوتی ہیں، جن میں وہ صرف ایک دوسرے کے حوالے سے مثبت باتیں جانتے اور سوچتے ہیں لیکن شادی کے بعد مستقل ساتھ رہنے پر ایک دوسرے کی شخصیت کے منفی اور قابل نفرت پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پچھلے زمانوں میں زیادہ تر جوڑے صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی کمی کو مل کر پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب عدم برداشت اور قدرے آزاد خیالی کے باعث اکثر لو میرج کرنے والے جوڑے ان سب معاملات سے گھبرا کر طلاق کے راستہ پر چل پڑتے ہیں۔ آج کل طلاق کی ایک دوسری بڑی وجہ میاں بیوی کا شادی سے پہلے ایک دوسرے سے بڑی امیدیں وابستہ کر لینا ہے۔ اکثر جوڑے ایک دوسرے پر امیدیں باندھ لیتے ہیں اور پھر جب عملی زندگی میں یہ توقعات پوری نہیں ہو پاتیں تو طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات، بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی طلاق دیکھنے میں آئی ہے۔ بعض اقات صرف بعض بیویاں اس بات پر خلع لینے کے لئے آ جاتی ہیں کہ ان کا شوہر انہیں گھمانے پھرانے کے لئے نہیں لے کر جانے یا پھر ان کے ذاتی اخراجات کے لئے پیسے نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد ملازمت پیشہ لوگوں کا شہر ہے اور یہاں رہنے والوں کی آمدن محدود ہوتی ہے اور، ایسے حالات و معاملات میں جب شوہر سے پوچھا جاتا ہے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ بیوی کے مطالبات پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں کے درمیان ناچاقی بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پھر طلاق میں ہی ان کو اپنی بقا نظر آتی ہے۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق بچے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تین سے چار بچوں والے لوگ بھی طلاق لینے یا دینے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بچے ماں کے پاس رہیں یا باپ کے دوسرے کی کمی زندگی بھر پوری نہیں ہو پاتی۔ یہ بھی ایک پہلو ہے کہ نوجوان جوڑے زیادہ تر طلاقوں یا خلع کے لئے آتے ہیں اور بعض اوقات ایسے جوڑے بھی آتے ہیں جو درمیانی عمر کے ہوتے ہیں۔ ان تمام صورتوں میں طلاقوں کی بڑی وجہ برداشت کی کمی اور ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہونا ہی ہونا ہے۔ مرد یا خواتین کے شادی کے بعد بھی کسی دوسری عورت یا مرد سے تعلقات ازدواجی زندگی کے لئے زہر قاتل ہیں۔ ایسے معاملات میں دونوں اکثر دوسرے فریق کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں سوشل سٹیٹس کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی لیکن معاشرتی فرق بہت بڑی وجہ ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ ذمہ داری شیئر نہ کرنے کی وجہ سے بھی میاں بیوی دونوں ساتھ نہیں چل پاتے۔ خواتین اکثر اپنی بہنوں یا سہیلیوں کی خوشحالی دیکھ کر اپنی تنگ دستی پر نالاں اور معترض ہوتی ہیں یا پھر مرد دیگر دوستوں عزیزوں کے امیر سسرال کو دیکھ کر اپنے سسرال سے بھی خود تراشیدہ امیدیں باندھ لیتے ہیں لیکن ایسی خواہشوں کے پورا نہ ہونے پر علیحدگیاں ہو جاتی ہیں۔ ایسے کیسز میں نقصان دونوں میاں بیوی کا ہی ہوتا ہے۔
پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں طلاق کی شرح ماضی میں بہت کم تھی۔ لیکن اب اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں ثالثی کونسل میں ایسے مقدمات بھی قابل ذکر تعداد میں درج کرائے گئے ہیں جہاں بعض مرد حضرات نے پہلی بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی رچائی، اور اس دوسری شادی کی وجہ سے، ان کی پہلی شادی بھی خطرے میں پڑ گئی۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی میں طلاق و دیگر فیملی کیسز کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ طلاق یقینی طور پر ایک تکلیف دہ عمل ہے لیکن چونکہ ہمارا مسئلہ ہر چیز میں انتہائی حدوں کو چھوتا ہے۔ میانہ روی کا استعمال ہم کم ہی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے طلاق کی شرح بڑھ گئی ہے اور جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقے میں یہ قباحت زیادہ سامنے آ رہی ہے جہاں طلاقوں کی صورت میں لڑائی جھگڑے، کورٹ کچہریوں کے چکر خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں کے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں کیونکہ والدین کے مابین طلاق واقع ہو جانے سے بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں اور ان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ ماں باپ کے اس عمل کی وجہ سے ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور بچے تعلیمی میدان میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بچوں کو اس نفسیاتی اور ذہنی اذیت سے بچانے کا واحد حل یہی ہے کہ طلاق اور خلع سے حتی الامکان بچا جائے۔ طلاق کی عمومی اور پہلی وجہ تعلیم و شعور کا نہ ہونا ہے۔ دوسری بڑی وجہ عدم برداشت کا مرض ہے جو من حیث القوم ہم میں سرایت کر چکا ہے۔ میاں بیوی جیسے نفیس رشتے میں برداشت کا عنصر لازم و ملزوم ہونا چاہیے۔ اگر دونوں ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں کرینگے۔ درگزر کی روش کو فراموش کر دینگے تو رشتے کبھی استوار نہیں رہ سکتے۔ اس وقت ملتان کی عدالتوں میں زیر سماعت فیملی دعووں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ جس کی وجہ پسماندہ قدریں، غیر مساوی نظام، کم عمری کی شادیاں، مہنگائی، بے روزگاری، جوئے، منشیات کی لعنت اور مغربی میڈیا کی یلغار قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق لوگوں میں عدم برداشت کی بڑی وجہ مہنگائی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گوناگوں مسائل کا شکار ہونا ہے۔ لیکن بلا شبہ تمام مسائل کا حل ہوتا ہے۔ ہر فرد اگر اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کر لے تو صورتحال خاصی بہتر ہوسکتی ہے۔ اور کبھی طلاق کی نوبت نہیں آ گتی۔
پاکستان میں فیملی کورٹ ایکٹ 2015میں منظور ہوا جس کے سیکشن 10کی دفعہ 6کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کر دیا گیا جو کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ قبل ازیں حکومت پنجاب نے گھریلو تشدد، ازدواجی جھگڑوں، طلاق کے بعد جہیز سے متعلق پیدا ہوئے والے تنازعات کو حل کروانے اور عدالتوں سے فیملی مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لءے مصالحت انجمن پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد تھا کہ میاں بیوی کے جھگڑوں میں صلح صفائی کرائی جائے تاکہ طلاق کے خدشات زائل ہوں اور طرفین کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے مگر اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہونے کے باعث عدالتوں سے فیملی مقدمات کے بوجھ میں کمی نہ لائی جا سکی ہے۔ فیملی کورٹس میں جنوری 2022میں 1248نئے کیس دائر ہوئے اور 1589کا فیصلہ کیا گیا ماہ فروری میں 1071 دائر اور 1497کا فیصلہ، ماہ مارچ میں 1141دعوے دائر اور 1507کو نمٹایا گیا۔ ماہ اپریل میں 1024کیس دائر اور 1358کا فیصلہ کیا گیا ماہ مئی میں 1188کیس دائر اور 1112کا فیصلہ کیا گیا۔ ماہ جون میں 1242نئے فیملی کیس دائر ہوئے اور 1220کو نمٹایا گیا۔ اسی طرح ماہ جولائی میں 996کیس دائر ہوئے اور 1397کے فیصلوں کے بعد فیملی کورٹس میں 7ہزار 9سو 75دعوے زیر سماعت رہے۔ اگست میں فیملی کورٹس میں چھٹیوں کی وجہ سے کیسز و اپیلیوں کی سماعت نہ ہو ئی۔ ماہ ستمبر میں 1952نئے فیملی کیس دائر ہوئے اور 1210کو نمٹایا گیا۔ ماہ اکتوبر میں 1408 نئے فیملی کیس دائر ہوئے اور 1078کو نمٹایا گیا۔ بہرحال پاکستان جیسے معاشرے میں طلاقوں کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ اس ملک کے مبلغ اور رہنما حلقوں کے لئے چشم کُشا ہیں ہمیں اس حوالے سے راست اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button