سیاسی بھگوانوں کا انجام
سیدہ عنبرین
درجنوں واقعات ہیں جو بنگلہ دیش کی حسینہ حکومت کے سخت ترین سنسر کے سب رپورٹ نہیں ہو سکے لیکن سوشل میڈیا نے ان پر پڑا پردہ اٹھا دیا، جس کے بعد ملک بھر میں انٹر نیٹ بند کر دیا گیا مگر کب تک؟
25 سالہ ابو سعید یونیورسٹی گرایجویٹ تھا اور کئی برس سے ہاتھوں میں ڈگری پکڑے نوکری کی تلاش میں دفتروں میں دھکے کھا رہا تھا، حکومت کے خلاف نکلنے والے پہلے جلوس کی پہلی صف میں اسے پولیس نے آگے بڑھنے سے روکا تو اس نے سینہ تان کر کہا مجھے گولی مار دو، میں گولیوں کے ڈر سے رکوں گا نہیں، ایک پولیس افسر نے اسے گولی مار دی وہ زمین پر گر گیا ہمت کر کے اٹھ کھڑا ہوا، اسے دوسری گولی ماری وہ گرا مگر پھر اٹھا، اسے تیسری گولی ماری وہ ایسا گرا کہ پھر نہ اٹھ سکا، لیکن اس کے بعد پورے بنگلہ دیش کا ہر بچہ، بوڑھا، جوان اور خواتین اٹھ کھڑی ہوئیں۔ 10روزہ احتجاج میں 200کے قریب ہلاکتیں ہو چکیں، زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتالوں میں داخل ہے، مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا، زخمی ہزاروں میں ہیں۔
جلوس میں شامل سیکڑوں طالبات آگے بڑھ رہی تھیں، ایک دھان پان سی لڑکی کو گولی ماری، وہ زمین پر گر گئی، اسے مارنے کیلئے دوسری گولی کی ضرورت نہ تھی، پولیس والا آگے بڑھا اس نے لڑکی کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بندوق رکھ کر گولیاں چلانے کے بعد ایک فقرہ کہا جس سے پولیس کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے، اس نے کہا اب ’’ اس کی خارش ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔
جاں بحق ہونے والوں میں درجنوں لڑکیاں شامل ہیں، لیکن لاشیں حسینہ حکومت کے قبضے میں ہیں۔ ہر تحریک میں ڈھاکہ یونیورسٹی کا کردار ہوتا ہے، مظاہرین کو کچلنے کیلئے ڈھاکہ یونیورسٹی عمارت کی چھت پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوجی دستے اتارے گئے، جنہوں نے اترتے ہی حکم کے مطابق فائر کھول دیا اور یونیورسٹی کو خالی کرا کر وہاں پوزیشنیں سنبھال لیں۔
مظاہرین سرکاری عمارتوں دفاتر کو نذر آتش کرتے کرتے جیل تک پہنچ گئے، جہاں ہڑتالی طلبا کو قید کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے اپنے ساتھیوں کو رہا کرانے کیلئے دھاوا بولا، توڑ پھوڑ جاری تھی کہ جیل میں آگ بھڑک اٹھی، جیل کے عملے نے بیرکوں کے تالے نہ کھولے، ان میں موجود قیدیوں کی ایک بڑی تعداد زندہ جل کر کوئلہ بن گئی۔ مظاہرین جب تک ان بیرکوں کے قریب پہنچے سب کچھ جل کر راکھ ہو چکا تھا، جیل کا عملہ فرار ہو چکا تھا، کچھ قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پیرا ملٹری فورسز نے حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کیلئے بے پناہ تشدد کیا۔ تشدد کرنے والے وہ بنگالی تھے جنہیں شہداء کوٹے تحت پرکشش ملازمتیں دی گئی تھیں، وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر حق وفا ادا کرتے نظر آئے۔ انہوں نے حسینہ حکومت کے ہر ناجائز حکم کی تعمیل میں وہ کچھ کیا جسے دیکھ کر انسانیت شرما گئی، کرفیو لگانے کے بعد لاشیں غائب کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اطلاعات کے مطابق رات کے اندھیرے میں ویران و بیابان مقامات پر گڑھے کھود کر درجنوں افراد کو اجتماعی قبروں میں بغیر غسل و کفن دفنا دیا گیا۔ ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خاص طور پر ہدایات جاری کی گئیں کہ کسی لڑکی کی لاش مظاہرین تک نہ پہنچے۔ خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ایسا ہو گیا تو خواتین کی لاشیں اور ان پر کیا گیا تشدد دیکھ کر دنیا بھر میں حسینہ حکومت کے خلاف نفرت کی لہر اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔
مظاہرین کو کچلنے کیلئے آرمڈ پولیس وہیکل اور فوج کے ٹینک اہم شاہراہوں پر پہنچا دیئے گئے تھے۔ ایک ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا ایک نوجوان طالب علم جوش و جذبات میں ایک آرمڈ پولیس وہیکل پر چڑھ گیا، اس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے گاڑی کی چھت میں بنی ہوئی کھڑکی سے گولی چلائی، نوجوان شدید زخمی حالت میں گاڑی کی چھت پر پڑا نظر آتا رہا، کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد گاڑی میں بیٹھے افراد نے اس کے نیم مردہ جسم کو گھسیٹ کر زمین پر پھینک دیا اور آگے بڑھ گئے، یہ نوجوان پانی مانگتے مانگتے دنیا میں اپنی سانسیں پوری کر گیا، اس کے منہ میں پانی کی چند بوندیں ڈالنے والا کوئی نہ تھا۔
اپنے ساتھیوں کو پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے ہاتھوں موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر عوام کا غم و غصہ اپنی انتہائوں کو پہنچ گیا، جس پر انہوں نے اپنے اوپر گولیاں برسانے والوں کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا جو ان کے ساتھ کیا جا رہا تھا، پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے جو افراد مظاہرین کے ہتھے چڑھ گئے ان پر تشدد کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ایسے چند افراد کی ہلاکت کی حکومت بنگلہ دیش نے تصدیق کی ہے لیکن ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت میں بیٹھے جج صاحبان نہایت خاموشی سے ملک میں جاری قتل عام دیکھتے رہے وہ چاہتے تو پہلے ہی مرحلے پر اپنا کردار ادا کرتے اور نوجوانوں کے قتل عام کو روک سکتے تھے لیکن یہ طبقہ بھی ’’ ورثاء شہدا سرٹیفکیٹ‘‘ کے زور پر گزشتہ 53برس سے سب کچھ دیکھتا ہے مگر خاموش رہتا ہے، ان کی طرف سے آنے والا فیصلہ بظاہر تو انصاف پر مبنی نظر آتا ہے لیکن یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ’’ جھانسی کی رانی‘‘ کے سٹائل میں گزشتہ کئی برس سے حکومت کی سربراہ کے اشارہ ابرو کا انتظار کیا گیا۔
حسینہ شیخ نے اسی برس چوتھی مرتبہ وزیراعظم کا منصب سنبھالا ہے ان انتخابات سے قبل انہوں نے تمام اپوزیشن رہنمائوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرا کے جیل بھجوا دیا، جس پر کسی بھی اپوزیشن جماعت نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ یوں وہ ایسی حکومت کی سربراہ ہیں جس میں اپوزیشن کا نام و نشان نہیں، یہ انتخابات دھاندلی سے بھرپور تھے، جنہیں ہر سطح پر ہر ادارے نے سہولت مہیا کی، اقتدار کے نشے اور طاقت نے حسینہ شیخ کو بھگوان بنا دیا لیکن کئی بھگوان عوام کی ٹھوکروں کی زد میں آ کر نیست و نابود ہوتے دیکھے گئے۔ شیخ مجیب الرحمان کو کبھی بھگوان کا درجہ حاصل تھا، انجام سب کے سامنے ہے، بنگلہ دیشی عوام کالے قانون کے سامنے ڈٹ گئے، انہیں صد سلام، ہماری نیند گہری ہے، مکمل غلامی کے ہوش آئے گا۔