آج کا ’’ مرد حر‘‘
فرخ بصیر
۔پاکستان آج کل ایمرجنسی کی افواہوں کی زد میں ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب ہمیں کوئی ایسی خبر یا واقعہ دیکھنے یا سننے کو نہ مل رہا ہو جو ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ حکومت ہے تو اس کی تمام تر توجہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرنے اور اس کی شرائط پوری کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کی ماری عوام کو طفل تسلیاں دینے اور نئے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح تک محدود ہے۔ بعض سیکٹرز ( روٹی اور پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے) میں عوام کو وقتی ریلیف بھی ملا ہے مگر قرضوں اور گردشی قرضوں میں الجھی حکومت کیلئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام ہے جس کے لیے اسے پتہ نہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں، دوسری طرف اپوزیشن کا سارا زور حکومت اور ریاست کو پریشر میں لا کر اپنے قیدی بانی لیڈر کیلئے ریلیف حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ خان صاحب کی طرف سے اپنی گرفتاری کی صورت میں جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کی کال دینے کے اعتراف پر ابھی انکے سیاسی مخالفین کی طرف سے نکتہ چینی شروع ہوئی تھی کہ قومی اسمبلی کے بعد اب پنجاب اسمبلی میں بھی اپوزیشن ارکان نے ٹوکن بھوک ہڑتال کی کالز دیدی ہیں۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور شبلی فراز کی قیادت میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے قومی اسمبلی کے سامنے 4گھنٹے کی جزوی بھوک ہڑتال سے اپنا احتجاج شروع کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مستعفی ہو اور نئے انتخابات کروائے جائیں۔ پاکستانی عوام اور اہل دانش کیلئے یہ سو چنے اور سمجھنے کی گھڑی ہے کہ کیا قرضوں اور مہنگائی کے عفریت میں پھنسا ملک الیکشن کے ڈیڑھ برس بعد دوبارہ عام انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے؟۔
عام پاکستانی سے پوچھیں تو وہ بجلی کے بھاری بلوں اور ٹیکسوں کی بھر مار سے بلبلایا ہوا ہے، اس کی دلچسپی نئے انتخابات ہیں نہ کسی خاص جماعت کی حکمرانی، وہ صرف ملک میں امن و امان، استحکام، ترقی اور مہنگائی سے نجات چاہتا ہے۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی بنیادی وجہ اس میں درج درجنوں ٹیکس، اس کا ٹیرف فارمولا، آئی پی پیز کیکیپسٹی چارجز، ہیں جس کا نشانہ وہ بن رہا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اس کیلئے قومی مالیاتی ایوارڈ کی طرح کا فارمولا تیار کرنا ہو گا۔ بہتر ہو گا کہ حکومت فوری طور پر آئی پی پیز کے ساتھ ہونیوالے معاہدے پبلک کرے، وفاقی اور صوبائی سطح پر ترقیاتی فنڈز اور سکیموں کو فریز کر کے انہیں بجلی کے بھاری بلوں کا بوجھ کم کرنے پر صرف کرے۔
موجودہ رجیم میں وہ کون سی شخصیت ہے جو مذکورہ تمام مسائل کا آٹ آف باکس حل نکال سکتی ہے تو میرا قیاس کہتا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اس وقت پاکستان کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کیساتھ حکومت اور اپوزیشن کی تمام اہم جماعتیں بیٹھ کر ملک کے سیاسی و معاشی مسائل کا دیرپا اور ٹھوس حل تلاش کر سکتی ہیں۔ اس نیک کام کی ابتداء کرنے کیلئے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو اپنے برادر خورد وزیر اعظم نواز شریف اور اپنی صاحبزادی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور اسحاق ڈار پر مشتمل وفد کو صدر مملکت کے ساتھ بیٹھ کر ملکی مسائل کے حل کا سنجیدہ اور قابل عمل فارمولا طے کرنا ہو گا۔ مولانا فضل الرحمان، اے این پی اور بلوچستان کے ترقی پسند قائدین، ایم کیو ایم کے علاوہ اپوزیشن ،اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری کے ساتھ ایک گرینڈ نیشنل ڈیبیٹ کے بعد ایسے حل پر پہنچا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک استحکام و ترقی کی پٹڑی پر چڑھ سکتا ہے، اس کے لیے تمام فریقین کو اپنی ذاتی انائوں، ضد اور ہٹ دھرمی کو پس پشت ڈالنا ہو گا اور اس کا فارمولہ صدر مملکت آصف علی زرداری دینے کی بھر پور صلاحیت اور نیت رکھتے ہیں، ان کی 69ویں سالگرہ 26جولائی کو ملک بھر میں منائی جا رہی ہے، پوری قوم اس مبارک موقع پر ان سے توقع کرتی ہے کہ وہ خود ایک قدم آگے بڑھ کے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو ایوان صدر میں گرینڈ ڈبیٹ میں شرکت کی دعوت دیں، اب یہ ہمارے سیاسی احباب پر منحصر ہے کہ وہ کب آصف علی زرداری سے استفادہ کرتے ہیں۔ جتنی جلدی وہ ایسا کر لیں گے اتنا ہی وہ ملک و قوم اور ان کے حق میں بہتر ہو گا۔