جانیے! امریکہ اسرائیل کو کیسے اور کونسی فوجی مدد فراہم کرتا ہے؟
غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کی وجہ سے واشنگٹن سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو فراہم کردہ اربوں ڈالر کی فوجی معاونت اور دیگر امداد پر شرائط عائد کرے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امریکی غیر ملکی امداد حاصل کی ہے۔
اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کی تفصیلات درجِ ذیل ہیں جبکہ علاقے میں اس کی بے رحم جنگ جاری ہے:
قانوناً کون سی امداد کا اختیار ہے؟
2016 میں امریکی اور اسرائیلی حکومتوں نے 10 سالہ مفاہمت کی ایک تیسری یادداشت پر دستخط کیے تھے جو یکم اکتوبر 2018 سے 30 ستمبر 2028 تک کی مدت کا احاطہ کرتی ہے۔ یادداشت 10 سالوں میں مجموعی طور پر 38 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتی ہے جس میں فوجی سازوسامان خریدنے کے لیے 33 بلین ڈالر اور میزائل ڈیفنس سسٹم کے لیے 5 بلین ڈالر کی گرانٹس ہیں۔
اسرائیل کو ہتھیاروں کے کون سے جدید سسٹمز ملتے ہیں؟
اسرائیل ایف-35 جوائنٹ اسٹرائیک لڑاکا طیاروں کا پہلا بین الاقوامی آپریٹر ہے جسے اب تک کا جدید ترین لڑاکا طیارہ سمجھا جاتا ہے۔ گذشتہ سال تک اسرائیل 75 ایف-35 خریدنے کے لیے پر تول رہا تھا اور امریکی مدد سے ان کی ادائیگی کرتے ہوئے اس نے اب تک 36 طیارے حاصل کر لیے تھے۔
امریکہ نے اسرائیل کو اس کا مختصر فاصلے تک مار کرنے والا آئرن ڈوم راکٹ دفاعی نظام تیار کرنے اور مسلح کرنے میں بھی مدد کی ہے جو اسرائیل اور لبنان میں قائم حزب اللہ کے درمیان 2006 کی جنگ کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ امریکہ نے اسرائیل کو اپنا میزائل خزانہ بھرنے میں مدد دینے کے لیے کئی مرتبہ کروڑوں ڈالر بھیجے ہیں۔
واشنگٹن نے اسرائیل کے "ڈیوڈ’ز سلنگ” نظام کی ترقی کے لیے فنڈز فراہم کرنے میں بھی مدد کی ہے جو 100 سے 200 کلومیٹر (62 میل سے 124 میل) دور سے داغے گئے راکٹوں کو مار گرانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
کیا اسرائیل کو حماس کے خلاف مہم کے لیے مزید کچھ ملے گا؟
گذشتہ سال صدر جو بائیڈن نے کانگریس سے کہا کہ وہ 95 بلین ڈالر کے اضافی اخراجات کے بل کی منظوری دے جس میں اسرائیل کے لیے 14 بلین ڈالر کے علاوہ یوکرین کے لیے 60 بلین ڈالر، تائیوان کے لیے امداد اور اربوں کی انسانی امداد شامل تھی۔
یہ پیکج فروری میں 70 فیصد حمایت کے ساتھ سینیٹ سے منظور ہو گیا لیکن ایوان میں روک دیا گیا ہے جس کے ریپبلکن رہنما اس کا مسودہ ووٹ کے لیے پیش نہیں کریں گے اور اس کی بڑی وجہ یوکرین کے لیے مزید فنڈنگ پر اعتراض ہے۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے مٹھی بھر ڈیموکریٹس کی طرف سے بھی اسے مزاحمت کا سامنا ہے جو اسرائیل کو مزید رقم بھیجنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اسرائیل اس وقت ایک فوجی مہم چلائے ہوئے ہے جس میں فلسطینی محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق غزہ میں 30,000 سے زیادہ شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔
واشنگٹن مزید کن طریقوں سے اسرائیل کی مدد کرتا ہے؟
امریکہ نے طویل عرصے سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قراردادوں کو روکنے کے لیے ویٹو پاور استعمال کی ہے۔ اس سے قبل غزہ میں چھ ماہ سے جاری جنگ میں اس نے ایسے اقدامات کو ویٹو کر دیا تھا جن میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ شامل تھا۔
سلامتی کونسل میں منظور ہونے کے لیے قرارداد کے حق میں کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس یا چین کی جانب سے کوئی ویٹو نہیں ہونا چاہیے۔ گذشتہ مہینے کے آخر میں واشنگٹن نے ویٹو استعمال کرنے کے بجائے جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد پر ووٹنگ میں شرکت سے گریز کرتے ہوئے اسرائیل کے لیے اپنے روایتی تحفظ کو ختم کر دیا حالانکہ اس نے مختصر متن کو ‘غیر پابند’ قرار دیا تھا۔
واشنگٹن نے اسرائیل کی طرفداری کہیں اور کی ہے۔ اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک پر تنقید کرنے پر ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے دست بردار کر دیا جو دنیا میں انسانی حقوق کا اہم ترین ادارہ ہے۔
ٹرمپ کے دور میں ہی امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو سے رکنیت ختم کر دی۔ ان کی انتظامیہ نے اسرائیل کے خلاف تعصب کو اس کی ایک وجہ قرار دیا۔
ٹرمپ نے 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے کئی عشروں کی امریکی پالیسی بھی تبدیل کر دی۔ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائی مذاہب کے مقدس مقامات کے مرکز یروشلم کی حیثیت ایک سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے جو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدے تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہے۔