CM RizwanColumn

انصافی جمہوریت کے پیٹ میں ایک اور خنجر

سی ایم رضوان
دیانت، امانت اور انصاف کی عظیم دعویدار پاکستان کی واحد اور عظیم سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن میں مبینہ دھاندلی سے ملنے والی عظیم ترین محرومیوں کا درد بھرا نوحہ ابھی جاری تھا کہ مظلومیت کا ایک اور کارڈ اس جماعت کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے اس کی گفتنی جمہوریت کے پیٹ میں الیکشن کمیشن نے ایک اور زہریلا خنجر گھونپ دیا۔ بہرحال فوری اور بلاتاخیر فرسٹ ایڈ کے طور پر اس جماعت کی بچی کھچی قانون دان قیادت نے اس فیصلے کو من چاہی عدالت میں چیلنج کرنے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ یوں انصاف کی ایک نئی منزل کی تلاش شروع ہو گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دبے لفظوں میں اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہاں انصاف ملنے کی توقع عبث ہے۔ واضح رہے کہ اس ناہنجار فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے پی ٹی آئی کی ہم نشین سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ناقابل تلافی قانونی نقائص اور ترجیحی فہرست جمع کرانے کی لازمی قانونی سیکشن کی خلاف ورزی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی مستحق نہیں۔ اب اسمبلی کی نشستیں خالی نہیں رہیں گی بلکہ باقی پارلیمانی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی ترجیحاتی فہرست جمع کرانے میں دو دن کی توسیع بھی کی تھی۔ اسی دوران ہی پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے 8فروری کے الیکشن میں کامیابی کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن ریکارڈ کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے ترجیحاتی فہرست جمع نہیں کرائی تھی بلکہ مخصوص نشستوں کے لئے اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی بھی جمع نہیں کرائے تھے اور پھر یہ بھی کہ سنی اتحاد کونسل کے کسی امیدوار نے کسی اسمبلی کی نشست پر الیکشن بھی نہیں لڑا۔ یوں قرار دیا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کا بروقت مخصوص نشستوں کی فہرستیں مہیا نہ کرنا لاعلاج قانونی نقص ہے۔ مزید کہا گیا کہ چونکہ خود سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے انتخابی نشان کے باوجود آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔ سنی اتحاد کونسل نے تصدیق کی کہ ان کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اس لئے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 206کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔ آئین کے آرٹیکل 51میں واضح درج ہے کہ جو سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں نشستیں جیت کر آئیں گی وہ مخصوص نشستوں کی مستحق ہوں گی۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 2میں واضح درج ہے کہ سیاسی جماعت وہ تنظیم ہے جو پبلک آفس اور اسمبلی کے لئے الیکشن میں حصہ لے۔ یہ ٹھیک کہ سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے جس کے پاس انتخابی نشان ہے لیکن سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں بطور رجسٹرڈ سیاسی جماعت حصہ نہیں لیا۔ سنی اتحاد کونسل نے ترجیحی فہرست بھی جمع نہیں کرائی تھی جس کا مطلب ہے کہ وہ بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ مطلب یہ کہ سنی اتحاد کونسل نہ الیکشن لڑنے میں دلچسپی رکھتی تھی نہ مخصوص نشستیں لینے میں۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے ترجیحی فہرست جمع کرانے کے لئے کافی وقت دیا تھا۔ یہ طے شدہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو اہم معاملات پر فیصلے کرتے ہوئے مستقبل میں اس کے نتائج سے باخبر رہنا چاہیے مگر مذکورہ جماعت نے ایسا نہیں کیا۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق کمیشن کی جانب سے مختص وقت میں جمع کرائی گئی لسٹ نہ تبدیل ہو سکتی ہے نہ ہی اس میں ترمیم ہو سکتی ہے۔ واضح ہے کہ ترجیحی فہرست میں نہ کچھ شامل ہو سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے نہ مٹایا جا سکتا ہے۔ فیصلے کے مطابق سیکشن 104کے مطابق اگر جمع کرائی گئی ترجیحاتی فہرست ایگزاسٹ ہو جائے تو اس کے خالی ہونے پر نیا نام دیا جا سکتا ہے۔ نیا نام کسی ممبر کے انتقال، استعفے یا نااہلی کے باعث خالی ہونے پر فہرست میں جمع کرایا جا سکتا ہے۔ کمیشن کی طے کردہ تاریخ گزرنے کے بعد پارٹی لسٹ میں نہ تبدیلی ہو سکتی ہے نا نئی فہرست جمع ہو سکتی ہے۔ اگر قانون ساز چاہتے تو وہ فہرست ختم ہونے پر نئے نام شامل کرنے کے ساتھ نئی ترجیحاتی فہرست جمع کرانے کی سیکشن بھی شامل کر سکتے تھے۔ بہرحال سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ 2019میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشست دی گئی تھی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ترجیحاتی فہرست میں نہ تبدیلی کی جا سکتی ہے نہ مدت مکمل ہونے پر نئی فہرست جمع کرائی جا سکتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ جماعتیں مقررہ مدت میں ترجیحاتی فہرست جمع کرائیں جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ آئین کے آرٹیکل 224چھ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا۔ آئین میں واضح درج ہے کہ اگر نشست انتقال، استعفے یا نااہلی کے باعث خالی ہو تو ترجیحاتی فہرست میں موجود اگلا شخص اس کی جگہ لے سکتا ہے۔ آئین میں درج ہے کہ اگر فہرست ختم ہو جائے تو نیا نام جمع کرایا جا سکتا ہی۔ البتہ کوئی سیاسی جماعت مقررہ مدت مکمل ہونے پر نئی فہرست جمع نہیں کروا سکتی اور کمیشن اسے قبول کرنے کا مجاز نہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق الیکشن ایکٹ ترجیحاتی فہرست مقررہ مدت اور الیکشن سے قبل جمع کرانے کے معاملے پر مبہم نہیں۔ آرٹیکل 224چھ اور سیکشن 104واضح ہیں جن کی مزید تشریح کی گنجائش نہیں۔ جس سے واضح ہے کہ ترجیحی فہرست جمع نہ کرانے کی کوئی تلافی نہیں، اس کا کوئی حل موجود نہیں۔ آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں کہ الیکشن شیڈول میں مختص وقت ختم ہونے کے بعد نئی ترجیحاتی فہرست جمع کرائی جائے۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ 2019میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشست دی گئی لیکن کمیشن کی معاونت کے لئے اس کے ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔ ناقابل تلافی مروجہ طریقہ کار، قانونی سقم اور سنی اتحاد کونسل کی جانب سے آئین اور قانون کی لازم شقوں کی خلاف ورزی کے باعث سنی اتحاد کونسل مختص نشست کے کوٹے کی مستحق نہیں۔ جس کے جواب میں فیصلے میں لکھا گیا کہ محض سیاسی جماعت میں شمولیت پر مختص نشست پر کوٹے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ نشستیں خالی چھوڑی جائیں گی جبکہ آئین میں درج ہے کہ نشستیں باقی جماعتوں میں تقسیم ہوں گی خالی نہیں چھوڑی جائیں گی۔ اگرچہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے لئے مستحق نہیں لیکن اسمبلی کی نشستیں خالی نہیں رہیں گی اور باقی جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں گی۔ گو کہ اس معاملے میں ممبر الیکشن کمیشن بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ چاروں ممبران سے اتفاق کرتا ہوں کہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہیں دی جا سکتیں لیکن یہ نشستیں باقی سیاسی جماعتوں میں بھی تقسیم نہیں کی جاسکتیں۔ یہ نشستیں آئین کے آرٹیکل 51اور 106کے تحت خالی رکھی جائیں۔ آئین کا آرٹیکل 106واضح ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو حاصل شدہ جنرل نشستوں کے مطابق مخصوص نشستیں ملیں گی۔ نشستیں تب تک خالی رکھی جائیں جب تک آئین کے آرٹیکل 51اور 106میں ترمیم نہیں ہو جاتی۔ یوں اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن کے ماضی میں بار بار یاد کروائے گئے انٹرا پارٹی الیکشن کا دوسرا خمیازہ بمطابق قانون بھگتنا پڑا۔ گو کہ اس پارٹی اور اس کے ہر عاشق کا دل نہیں چاہتا کہ اس طرح کے فیصلے آئیں لیکن قانون اور اصول کے ضابطوں کو بہر حال پورا ہونا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی 3مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی میں پنجاب سے 12، خیبر پختونخوا سے 8خواتین کی نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 24نشستوں اور غیر مسلموں کی 3نشستوں سے محروم ہو جائے گی جبکہ سندھ اسمبلی میں خواتین کی 2جبکہ خیبر پختونخوا میں خواتین کی 21اور اقلیتوں کی 4نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے چیف سمیت تمام ممبران کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم نے قرارداد تیار کی ہے جسے ابھی سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے خلاف آئین فیصلہ دیا ہے۔ جمہوریت کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ ماہر قانون ہونے کے باوجود یہ بھی کہہ دیا کہ آئین کہتا ہے کہ آزاد امیدوار بھی جیت کر کسی دوسری پارٹی میں جائیں تو مخصوص نشستیں ملیں گی۔ ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ صدارتی الیکشن اور سینیٹ کے الیکشن کو ملتوی کیا جائے۔ آئین میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ مخصوص نشستوں کے بغیر یہ الیکشن ہوں حالانکہ الیکشن کمیشن نے اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لئے یہ مخصوص نشستیں پارلیمان کی دیگر جماعتوں میں تقسیم کر کے کوٹے پورے کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ بہرحال جو انقلاب پی ٹی آئی لانا چاہتی ہے اس کے لئے وہ پرعزم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button