Ali HassanColumn

عمر ایوب اور تاریخی حقائق

علی حسن
اسلام آباد میں 2مارچ کو وزیراعظم کے انتخاب کے بعد جب تحریک انصاف کے نامزد امیدوار عمر ایوب خان جو پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں، واپس جا رہے تھے تو ایک صحافی نے چلتے چلتے ان سے سوال کیا کہ جب وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کرنے والے کی صف اول میں ہیں تو کیا انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ ان کے دادا ( جنرل ایوب خان ) نے اس ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا، صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو جعلی طریقہ سے شکست دی گئی، ان کے والد ( گوہر ایوب خان ) نے کراچی میں جلوس نکال کر مہاجروں کے علاقوں پر حملہ کیا تھا، عمر ایوب لمحہ بھر کے لئے رکے نہیں ( یہاں سیاست دانوں یا بڑے سرکاری افسران کا یہ ہی وتیرہ ہے کہ وہ صحافیوں نے کسی سوال کا جواب تسلی کے ساتھ دینے کے لیے بیٹھتے نہیں ہیں) بلکہ سوال مکمل ہونے کے بعد صرف اتنا جواب دیا ’’ آپ کو صحیح تاریخ کا علم نہیں ہے‘‘۔ اگر سوال کرنے والے کو صحیح تاریخ کو علم نہیں تھا تو عمر ایوب کو چاہئے تھا کہ آرام کے ساتھ کسی جگہ بیٹھ کر سوال کرنے والے صحافی کو صحیح تاریخ سے آگا ہ کرتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کا آلہ کار بن کر 7اکتوبر کو ملک بھر میں مارشل لاء نافذ کیا تھا۔ بعد میں 27اکتوبر کو صدر اسکندر مرزا کو ملک بدر کرنے کے بعد دوبارہ مکمل مارشل لاء نافذ کیا تھا اور عنان حکومت خود سنبھال لیا تھا۔ 1958ء سے 1964ء تک حکومت کرنے کے بعد انہیں ملک میں صدارتی انتخاب کرانے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ ان کے مقابلہ میں ملک میں اس وقت کے حکومت مخالف سیاسی رہنمائوں نے قائد اعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو مشترکہ امیدوار نامزد کیا تھا۔ اپنی نامزدگی کے بعد محترمہ نے ملک بھر میں تاریخی بڑے جلسے کئے تھے۔ 2جنوری 65ء کو عوام کے نامزد ملک بھر میں بنیادی جمہوریت کے 80ہزار اراکین نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ انتخابات میں سرکاری طور پر اعلان کردہ نتائج کے مطابق ایوب خان کو 49951ووٹ اور محترمہ فاطمہ جناح کو 28691ووٹ ڈالے گئے تھے۔ نتیجہ کے لحاظ سے ایوب خان کامیاب قرار دئیے گئے تھے۔ لیکن اس کو اہم پہلو یہ تھا کہ کراچی اور ڈھاکہ ایسے شہر تھے جہاں سے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کیے مقابلہ میں زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔ حیدرآباد ایسا شہر تھا جہاں ایوب خان 221ووٹ پڑے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح کو بھی 221ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اپنے والد کی کامیابی کا جشن منانے کے لئے ان کے بڑے بیٹے فوج کے ریٹائرڈ کیپٹن گوہر ایوب ( وہ اپنے والد کے اے ڈی سی بھی رہے تھے) نے کراچی میں ایک جلوس نکالا۔ جلوس نے مہاجر آبادیوں کا گشت کیا، جہاں تصادم ہو گیا۔ اخبارات میں خبریں کچھ اس طرح شائع ہوئی تھیں۔ بعد میں گوہر ایوب ن لیگ میں شامل ہو گئے تھے ۔ لیگ نے انہیں قومی اسمبلی کا اسپیکر اور پھر وفاقی وزیر بھی بنایا تھا۔
صدارتی انتخابات میں صدر ایوب خان کی کامیابی کی خوشی میں تیسرے روز 4جنوری 1965ء کو ان کے بیٹے گوہر ایوب نے کراچی میں پٹھان ٹرانسپورٹروں کے ساتھ خوشی میں کامیابی کا جلوس نکالا۔ کراچی میں دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود کمشنر کراچی روئیداد خان نے اس جلوس کی سہولت کے لئے پابندیاں نرم کر دی تھیں۔ کراچی کے باشندوں نے صدارتی انتخابات میں محترمی فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ اس جلوس کو دیکھ کر سخت مشتعل ہو گئے تھے ۔ لیاقت آباد، ناظم آباد گولی مار، کو رنگی میں شہریوں اور جلوس کے درمیان افسوس ناک تصادم ہوئے تھے ۔ اس تصادم کا بدلہ چکانے کے لئے رات کے وقت ان آبادیوں پر حملے کئے گئے، آگ لگائی گئی، اور کافی جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا تھا۔ پہلے دن سرکاری پریس نوٹ میں کہا گیا تھا کہ 6 افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ بعد میں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا کہ20افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی یاداشتوں کی کتاب شہاب نامہ میں تحریر کیا تھا کہ اس واقعہ کے بعد کئی ہفتوں تک کراچی میں خوف و ہراس کی فضا قائم تھی۔ یہ واقعہ اتنا سنگین تھا کہ اس سے متاثر ہوکر اپنے وقت کے مشہور شاعر فیض احمد فیض نے نظم ’’ لہو کا سراغ ‘‘ تحریر کی جس نے کافی شہرت حاصل کی۔ اس کا ایک شعر تھا ’’ نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا، یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا ‘‘۔
کراچی میں اردو بولنے والی آبادی کی اس وقت بھاری اکثریت تھی ۔ ایوب خان ان لوگوں کے حکومت مخالف رویہ کے پیش نظر ان سے ناراض ہی رہا کرتے تھے۔ یکم دسمبر 1964ء کو کراچی میں بنیادی جمہوریت کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے ایوب ان نے مہاجرین کو بطور خاص مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ اگر مس جناح انتخابات میں جیت گئیں اور ملک کمزور ہو گیا تو آپ تو پہلے ہندوستان سے ’’ بھاگ کر‘‘ یہاں آئے ہیں، اور اگر کوئی بات ہو گئی تو کہاں جائیں گے، آگے تو سمندر ہے‘‘۔ ان کے اس جملے کی وجہ سے مہاجروں میں کافی اشتعال پیدا ہوا تھا اور بعد میں یہ جملہ کافی مشہور بھی ہوا تھا۔ کراچی میں شائد اسی طعنہ کے رد عمل میں بی ڈی ممبروں کے بھاری اکثریت نے محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دیا تھا۔ ڈھاکہ میں ایوب حکومت سے ناراضگیوں اور بنگالیوں کو مرکز میں نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ایوب خان کو محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلہ میں کم ووٹ ڈالے گئے تھے۔ بہر حال عمر ایوب خان کو تاریخی حقائق سے مکمل آگاہی کے لئے تاریخی کتابوں کے علاوہ اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے اور کھلے ذہن کے ساتھ اعتراف کرنا چاہئے کہ ان کے دادا ایوب خان جو اس وقت فوج کے کمانڈر ان چیف تھے، ملک کو مار شل لاء نافذ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ لیکن 1953ء میں کراچی امریکہ کے کراچی میں متعین سفارتکار نے ان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
کراچی میں متعین امریکی کونسل جنرل ریلے ایس گپسن نے اپنی حکومت کو ایک مراسلہ روانہ کیا۔ مراسلہ پر تاریخ 13 فروری 1953ء درج ہے۔ انہوں نے مراسلہ میں لکھا ہے کہ’’ ان کی جنرل ایوب خان سے گفتگو ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو سیاست دانوں یا پبلک کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ لیکن اگر کھبی ایسا خطرہ پیدا ہوا تو فوج فوری مداخلت کر کے مار شل لاء نافذ کر کے حالات پر قابو پا لے گی۔ اگر حالات سنگین ہوئے تو فوج ملٹری حکومت قائم کر دے گی تاکہ پاکستان کی سالمیت محفوظ رہے۔ فوج کے بعض افسران کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبے کے امکانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو کی صلاحیتوں کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ جی ایچ کیو کے علم کے بغیر کوئی منصوبہ تیار نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی سازش کیس کی ناکامی کے بعد فوجی رہنما کسی ایسی کوشش سے باز رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی افسران پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اور جی ایچ کیو انٹیلی جنس کی صلاحیت کی موجودگی میں وہ محسوس نہیں کرتے کہ کوئی فوجی رہنما دوسروں کو اکسانے میں کامیاب ہوگا۔ سیاست دانوں کے حوالے سے ان کی حکومت کرنے کی خواہش کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں محسوس کرتے کہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ عبدالقیوم خان اور پنجاب کو وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ پاکستان کی رہنمائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں‘‘۔ ایوب خان کی بحیثیت کمانڈر انچیف تقرری 17جنوری 1951ء کو ہوئی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button