Column

واپسی ممکن ہے!

شکیل امجد صادق
امام احمد بن حنبلؒ کے پاس دو بہنیں آئی سوال ایسا کیا کہ احمد بن حنبل کو رلا دیا۔ پوچھتی ہیں بتائیں امام صاحب ہم رات کو چرخے پر کپڑا سوتتی ہیں بعض اوقات چراغ کی روشنی بند ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی میں کام کرتی ہیں اب چاند کی روشنی کے کپڑے کا معیار چراغ کی روشنی سے کم ہوتا ہے بتائیں کہ کیا ہم جب بیچیں تو یہ بتا کر بیچیں کہ یہ چراغ والا ہے یہ چاند والا آپ سنتے رہے اور خاموش رہے۔ پھر پوچھتی امام صاحب بعض اوقات ہمارا چراغ بند ہوجاتا ہمسائیوں کے چراغ کی روشنی میں جو ہمارے گھر آرہی ہوتی ہے اس سے کپڑا بناتے ہیں بتائیں کیا یہ چوری تو نہیں چراغ تو ان کا ہے بے شک روشنی ہمارے گھر آرہی ہے۔ آپؒ زاروقطار رونا شروع ہوئے پوچھا بیٹیوں کس کے گھر سے آئی ہو ؟۔
ان لڑکیوں نے بشر حافیؒ کا نام لیا کہ ہم ان کی بہنیں ہیں۔ آپؒ نے فرمایا میں بھی کہوں کہ ایسی تربیت کسی عام آدمی کے گھر کی نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔ سوچئے ہمارے اندر ایسی صفات ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے اندر ایسی خوبیاں ہیں؟ ہمارے سربراہوں کے اندر یہ جھلک نظر آتی ہے؟ کیا ہم اپنے دینِ فطرت کا بخوبی مطالعہ کرتے ہیں؟ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
پوری دنیا میں موجود مذاہب کی تعداد تقریباً چار ہزار دو سو ( 4200 ) ہے لیکن ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور آگے اس کے والدین پر منحصر ہے کہ وہ اسے مسلمان بنائیں یا غیر مسلم۔ یہودی بنائیں یا نصرانی۔۔۔۔ پاکستان ۔۔۔ ہمارا وطنِ عزیز جس کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ اس میں تقریباً پچیس کروڑ سے زائد لوگ مسلمان ہیں۔ والدین کی نسبت کی وجہ سے اولاد بھی مسلمان ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان بھی وہ ہیں جو سراپا اطاعت ہے۔ یعنی جس کا وجود اطاعت الہٰی اور اطاعت رسولؐ سے عبارت ہے۔ حضرت محمد ؐکو خاتم النبین ؐ مانتے ہیں۔ ہمارے وجود میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کا رنگ نظر آتا ہے۔ اب اپنے آپ سے پوچھئے کہ کیا ہم ان تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟ تو یقیناً جواب’’ نفی‘‘ میں ہو گا ۔ کبھی سوچا ہے ایسا کیوں ہے؟ کیوں ہمارے لیے دینِ محمدیہؐ پر چلنا مشکل ہو گیا ہے؟ یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ دینِ اسلام پوری دنیا میں موجود ادیان میں سب سے خوبصورت مذہب ہے۔ جس کے فقط پانچ ارکان ہیں۔ کلمہ توحید، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج۔۔۔ لیکن افسوس ہمیں ان کی ادائیگی بھی مشکل محسوس ہوتی ہے۔ میرا سوال ہے بنتِ حوا اور ابنِ آدم سے آخر کب تک بھٹکتے رہو گے؟ تمہیں جو احکام رب تعالیٰ کی طرف سے صادر کئے گئے تھے ، کیا تم ابھی اس پر عمل پیرا ہو؟ وہ دین جس کی خاطر خاتم النبیینؐ کو لہو لہان کیا گیا، کیا تم نے اس دینِ اسلام کا عَلم اٹھا رکھا ہے؟ کیا تم وہ غزوہ بدر، احد، موتہ، خندق سب بھول چکے ہو؟ وہ صحابہ کرامؓ کی شہادتیں کیا تم بھلا چکے ہو؟ افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ تم سب کچھ بھول چکے ہو۔۔۔ اے فقط نام کے مسلمانو! کیوں مایوس ہو چکے ہو؟ وہ وقت یاد کرو جب رب تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ٌ کو فرعون سے نجات دلائی، حضرت عیسیٰ ٌ کو نمرود سے نجات دی، یعقوبٌ کو حضرت یوسفٌ سے ملایا، حضرت یونسٌ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا، حضرت لوطٌ کو فحاش قوم سے بچایا، حضرت ادریسٌ کو صحت عطا کی، لقمان کو حکمت و دانائی جبکہ جن و ہوا کو حضرت سلمانٌ کا پابند کرنے والا رب بہت مہربان ہے، رب تعالیٰ نے فرمایا: ’’ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘۔ پھر بھی ہم غافل ہیں۔ قرآن الفرقان جو منبعِ ہدایت ہے، اسے پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے ، ہم نے انہیں الماریوں کی زینت بنا رکھا ہے۔ قرآن الکریم پر پڑی گرد ہمارے دلوں پر لگی کالک کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے۔۔ اے ابنِ آدم! تم نے تو دینِ حق کی سر بلندی کے لیے اپنی جانیں ٔ رب العزت کی راہ میں قربان کرنی تھیں، تم نے تو نبی رحمتٔ کی ناموس کی خاطر اپنی گردنیں کٹانے کے لیے ہمہ وقت گوش رہنا تھا لیکن تم۔۔۔ تم تو گانوں پر ناچ کر لوگوں کو جہنم کی طرف رغبت دلا رہے ہو۔ اے بنت حوا! تم نے تو فاطمہ بنت محمد ٔ کے نقشِ قدم پر چلنا تھا، تم نے تو حیا کے آنچل کو اپنے سر سے سرکنے نہیں دینا تھا، تم نے تو اپنے والدین کے لیے باعثِ فخر بننا تھا، تم نے تو جھکی نظروں کی مالکنیں ہونا تھا لیکن تم۔۔۔ تم تو سب بھلا چکی ہو، تم تو حرام رشتوں کی دلدل میں دھنسی جا رہی ہو، تمہارے فونز کی ٹارچیں ایک مخلوط اجتماع میں ایک سنگر کے لیے آن ہوتی ہیں، تم نے حیا کی چادر کو بہت دور پھینک دیا ہے، تم تو دوپٹہ کرنے سے بھی ڈرنے لگی ہو۔۔۔ اے بنت حوا! تم بے حیا ہو چکی ہو اور لوگوں کو بے حیائی کی طرف راغب کر رہی ہو۔۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ قبل از اسلام تمہاری حالت پیر کی جوتی سے بھی بد تر تھی۔ تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے سورہ نور، سورہ نساء ، سورہ احزاب اور سورہ مائدہ میں احکام جاری کیے ہیں لیکن افسوس تم انہیں اپنی زندگی میں لاگو نہ کر سکی۔۔ قومِ لوط کے انجام سے واقف ہوتے ہوئے بھی انجان بننے کی کوشش مت کیجئے، وہ پتھروں کی بارش کو بھی ہمیشہ یاد رکھیے، قومِ لوط کے اطوار اپنانے والوں کی حمایت کی سزا تمہاری سات نسلوں کو اٹھانی پڑے گی لہذا باز آ جائو اس سے۔ قومِ عاد اور ثمود کے انجام کو بھی ذہن میں لائیے کیسے چند لمحوں میں سب تباہ ہو گیا، یہ سب کچھ کرنا بے شک رب العزت کے لیے بہت آسان ہے۔۔ ابنِ آدم و بنتِ حوا ذہن میں یومِ حشر کا تصور تو لائو! خود کو دیکھو کہ جو اپنے والدین کو نہ ڈھونڈ پائے گا، اگر ڈھونڈ بھی لیا تو والدین تم سے بھاگ رہے ہوں گے کہ ہمارے اپنے گناہ بہت ہیں کہیں سے کوئی نیکی مل جائے۔۔ پھر۔۔ پھر کیا کرو گے؟ کس چہرہ کے ساتھ خاتم الانبیائؐ کی شفاعت کے طالب ہو گے، کہ جس نبیؐ کے تم امتی ہو ان کی سنت پر چلنے کی کوشش ہی نہ کی تم نے۔۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ اصحابِ النار والوں کے لیے بہت سخت عذاب ہے۔ اپنی دنیا کو سنوارنے کے چکر میں اپنی آخرت مت گنوائو۔ ابھی بھی وقت ہے واپس لوٹ آئو، اس کی طرف جو بڑا غفور الرحیم ہے۔ حق تعالیٰ جو تمہاری توبہ کا انتظار کر رہا ہے۔ زمین کو بچھونا اور آسمان کو اوڑھنا بنانے والا تمہیں کیوں ہدایت نہ دے گا وہ بڑا مہربان ہے وہ تو کافروں کو بھی ہدایت دیتا ہے، تم تو پھر مسلمان ہو۔۔ اپنی روایات، اقدار اور مذہب کو مت بھلائو، سنتِ رسولؐ پر عمل پیرا ہو جائو اور وہ جو بڑا لطف وکرم کرنے والا ہے، اسی کی طرف واپس لوٹ آئو کیونکہ موت یقینی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم فرما دو وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تو ضرور تمہیں ملنی ہے‘‘۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے توبہ کر لو۔ میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ رب العزت جو بادشاہی کا مالک ہے، تم پر اپنی زمین کبھی تنگ نہیں کرے گا۔۔ واپس آ جائو۔ تم خود ہی تو کہتے ہو چار دن کی زندگی ہے، اس کی بعد ایک ہمیشگی کی زندگی بھی تو ہے۔ اس کے لیے تم نے کیوں تیاری نہیں کی؟ آ جائو اور تھام لو اس کی رسی کو مضبوطی سے، پھر تم دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب ہو جائو گے۔ ابھی وقت ہے، ابھی لوٹ آ۔ اے بھٹکی راہ کے راہ گزر۔ لوٹ آ، لوٹ آ۔۔۔ اس میں ہی ہماری نجات ہے۔ اس میں ہی ہماری کامیابی ہے۔

جواب دیں

Back to top button